مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ بھٹائی نے اپنے آپ کو عورت میں سموکے عورت کی کتھا کو کیسے رقم کیا؟ میں نے اپنی چھوٹی سی بصیرت سے تاریخ کے اوراق میں جا کر دیکھنا چاہا کہ اورکون سے بھٹائی جیسے شاعر ہیں جنھوں نے عورت کو اپنی شاعری میں گایا ہے۔ اپنے روح کو عورت بنا کر رب کی تلاش کی ہے سچ کو ڈھونڈنا چاہا ہے۔ انھوں نے دنیا کو عورت کی آنکھ سے دیکھا ہے۔ مجھے کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ملا جو مرد تھا اور عورت بن کے شاعری ترتیب دی ہو۔ یوں تو شاعری کا بنیادی موضوع حسن ہی ہے اور ایسے کئی شعرا ہیں جنھوں نے عورت کو موضوع سخن بنایا ہے مگر مرد کی آنکھ سے دیکھا ہے۔
تو پھر کیا تھے بھٹائی؟ یہ سوال ان کے لیے بہت اہم ہے جو حقیقت کو مادیت کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اس کے لیے بھٹائی اورکچھ نہیں، فقط ایک عورت ہی ہونگے ایک ایسا مرد جو سچ کی تلاش میں نکلتے نکلتے خود عورت کا من بن بیٹھا۔ بھٹائی سمجھتے تھے یوں لگتا ہے سچ پانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ عورت کی روح بن جاؤ پھر بھٹائی اپنی ہر سوچ، ہر خیال کو عورت کی آنکھ سے دیکھنے لگا۔ اس نے سندھ میں پورچوگیزکو آتے دیکھا پھر انگریز تجارت کرنے آئے پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہاز لنگر انداز ہوتے ہوئے دیکھے۔ اس نے ٹھٹھہ کا عروج دیکھا اور زوال بھی دیکھا۔ دلی میں نادرشاہ کے قتل وغارت بھی دیکھی۔
یوں تو وہ صوفی تھے، اسی فقیری سلسلے سے، جس سے بلھا تھے، باہو اور فریدا تھے۔ وہ کبیرکی شاعری سے لے کے" سائیں " لفظ جو سندھ کا بہت مقدس لفظ بن گیا اور پھر یہ سائیں لفظ بھی وہ اپنا بھرم برقرار نہ رکھ سکا۔ ان کے اشعار پرکبیرکا اثر ہے وہ محققین نے کم ہی دکھایا ہے۔ بس وہ ایک عورت کی روح رکھتے تھے۔ کبیر ہو یا رومی ہو اس نے ان کو بھی اپنی سورمیوں کی آنکھ سے دیکھا۔ سسی، سوہنی، ماروی اور درجنوں سورمیاں ہیں جن کے گرد شاہ کی شاعری گھومتی ہے۔ وہ ان کو گاتا نہیں ہے وہ ہو جاتا ہے، خود پھر سسی، سوہنی اور ماروی اور پھر وہ اپنی آپ بیتی بتاتی ہیں۔ وہ راوی نہیں ہیں اور نہ ہی راوی کا سہارا لیا ہے جس طرح دوسرے شعراء نے۔ آج کے دن جب یہ مضمون آپ کے سامنے ہوگا تو آٹھ مارچ کا دن ہوگا، جوکہ عورتوں کا عالمی دن ہے۔ اس دن کے حوالے سے میں پرکیا لکھ سکتا ہوں چونکہ میں عورت نہیں، یقینا عورت ہی عورت پر خوب اور بہتر لکھ سکتی ہے۔ مگر بحیثیت ایک مرد مجھے عورت پر وہ لکھنا ہے جو سچ ہے۔
مجھے ایسا کچھ بھی نہیں لکھنا کہ میرے لکھنے میں عورت عظیم نظر آئے اور یہ کہ وہ بیٹی ہے، وہ ماں ہے، وہ بہن ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ کہ عورت کے بغیر مرد نامکمل ہے۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے عورت ہوتی ہے یہ کہ عورت محبت کا پیکر ہے وہ پاکیزہ ہے۔ یہ سب زاویے عورت کو مرد کی آنکھ سے دیکھنے کے ہیں۔ عورت بیٹی کسی مرد کی، عورت ماں کسی مرد کی، عورت بیوی کسی مرد کی مگر جو مجھے لکھنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ عورت مرد کے برابر ہے۔ جتنا مرد برا یا اچھا ہوسکتا ہے اتنی عورت بری یا اچھی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی اسی مٹی سے بنی ہے جس سے ہم بنے ہیں۔ وہ بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہیں جو ہم کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ وہ گھروں کی دہلیز تک محدود ہے اور پھر ہم ان کے حقوق پر غاصب ہیں، کیونکہ وہ وہ خود اپنے پیروں پر مضبوط نہیں۔ ایک غلط کام ہر مرد کے لیے جائز ہے مگر عورت کرے تو اس کی معاشرتی سزا عورت کو دگنی اور تگنی دیجاتی ہے۔ قانون تو ٹھیک ہے کہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مگر معاشر ہ نہیں۔ جب آئین اور معاشرے میں تصادم ہو پھر وہ سماج آگے نہیں جاتے بلکہ پیچھے کو جاتے ہیں۔
عالمی ضمیر کوئی دن بنائے۔ بچوں کا عالمی دن، والدین کا عالمی دن وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو عورتوں کے عالمی دن کی نسبت ہے وہ کسی کی بھی دن کی نہیں۔ اس لیے کہ عورت اب بھی پستی ہے، وہ مرد کے برابرحقوق نہیں پاتی۔ وہ اب بھی سماج کا کمزور حصہ ہے، وہ کمزور ہے، زیادتی عورت کے ساتھ ہی ہوتی ہے وہ چاہے جسمانی ہو یا پھرکچھ جس کی ممانعت ہے۔ کئی ایسے جرائم ہونگے جو منظرعام پر نہیں آتے، سیکڑوں ریپ ہوتے ہیں، جو منظر پر نہیں آتے۔
غالب سے کسی نے پوچھا کہ جوتے اور جوتی میں کیا فرق ہے؟ جواب دیا "جب مرد مارے تو جوتا اور جب عورت مارے تو جوتی" دونوں میں مارنے والا کام تو برابر ہے لیکن مرد اور عورت کے اسی ایک ہی کام کے دو زاویے ہیں۔ غالب نے یہ بات مذاقّا کہی تھی مگر یہ بات بھی تحقیق کی طالب ہے۔
معاشروں میں جب جاگرتا آئی ہے جب معاشرے سب کے حقوق کا احساس رکھنا شروع کرتے ہیں تب ایسی بحثیں تیزہوجاتی ہیں۔ عورت کی حالت پست ہے اور پھر پاکستان جو دنیا کے مروج عورت کے بہتر رہن وسہن کے حوالے سے ان پیمانوں کی لسٹ میں سب سے آخر میں آتا ہے۔ گھر میں غذا کم ہوتو سب سے کم بیٹی، بہن اور ماں کے حصے میں آتی ہے۔ انصاف اگر سب کو صحیح نہیں ملتا تو عورت کو اس سے بھی کم ملتا ہے، اگر مزدورکی بیوی ہے تو مزدور تو پسا ہوا ہے لیکن اس کی بیوی مزید پستی ہے۔
معاشرے کے صحت مند ہونے کا تعین اس بات سے ہوگا کہ وہاں عورت کتنی empowered ہے، وہ اگر خود کما لاتی بھی ہے تو اس کا مرد گھرکی ذمے داریوں میں برابری کی بنیاد پر حصہ لیتا ہے کہ نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں شاہ بھٹائی نے ماروی کے کردار میں حب الوطنی کی بات کی ہے۔ ایسا بنیادی طور پر نہیں ہے۔ اس نے ایک آزاد عورت کی بات کی ہے۔ ایک ایسی عورت جب حاکم وقت نے اس سے شادی کرنا چاہی مگر اس کی مرضی سے یہ اور بات ہے کہ اس حاکم وقت نے ماروی کو اپنے قید میں رکھا کہ وہ مان جائے۔ مگر ماروی نہ مانی۔ اس کے سامنے بادشاہ سلامت کی بیوی بننا، ہیروں اور جواہرات میں تولا جانا سب بیکار تھا۔ اسے وہ ملیر کی ایک دہقان کی آزاد بیٹی بہتر لگی جو خود اپنی مرضی سے جیتی ہے۔
بھٹائی ماروی میں یہی کہنا چاہتا ہے، ماروی مرضی کا دوسرا نام ہے۔ آزاد عورت کا کردار ہے جو کھیتوں اورکھلیانوں میں بے پرواہ، جھومنا چاہتی ہے، ناچنا چاہتی ہے تتلیوں کے ساتھ پرندوں کے ساتھ، ہواؤں میں مست اڑنا چاہتی ہے۔
آج کا دن عورتوں کا عالمی دن ہے، بھٹائی کی ماروی کا دن ہے۔
سوچتا ہوں اگر اس دنیا میں عورتیں بھی اتنی ہی تعداد میں ایوانوں میں ہوں جتنے مرد ہیں، اتنی ہی یہ وزیر اعظم ہوں، معاشیات دان، سائنسدان، وکلاء، انجنیئر، ڈاکٹرز، اساتذہ ہوں توکتنا امن وآشتی کی یہ دنیا ہوجائے۔ جس طرح بھٹائی کی ماروی میں ملیر تھا۔
" وہ جیسے بھی ہیں میرے مارو ہیں
میری عمر کی لڑکیاں کھیتوں میں خوب گھوما کرتی ہیں
میری التجا ہے اے خدا
کب تم اس کوٹ کی دیواریں گرادوگے"
(بھٹائی)