کئی شب خون مارے گئے، ہم نے دیکھے بھی، مگر ہمیں سمجھ نہیں آئے۔ شب خون کی کئی اشکال ہیں۔ شب خون ناشاد بھی ہوتے ہیں اور ناکام بھی۔ قدیم رومن ایمپائر میں اس کی بنیاد پڑی۔
سیزر نے سینیٹ کے حکم کو ٹھکرا دیا اور اقتدار سنبھال لیا مگر اس کی جڑیں سلطنت روم میں تھیں، سینیٹ لوگوں میں غیر مقبول ہو چکی تھی، اپنی افادیت کھو چکی تھی اور جب جب حق حکمرانی اور آئین اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب شب خون اپنی راہیں بناتا ہے۔ اسی لیے تو بارہا شب خون ایسے بھی مارے گئے۔ شب خون کے بعد پھر سے نیا دربار سجتا ہے۔ سب کے سب اپنے قبلے درست کر لیتے ہیں یہاں تک نظریۂ ضرورت بھی تحرک میں آ جاتا ہے۔
بہت سی اقسام ہیں شب خون کی۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے بڑے بھائی اور اپنے باپ کو قید کیا، اقتدار پر قبضہ کیا وہ بھی شب خون تھا بس شب خون کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی نظریے کی ضرورت ہوتی ہے، پھر وہ شب خون چاہے جنرل ضیاء الحق کا ہو یا اورنگزیب بادشاہ کا۔ آئین ساز پارلیمینٹ اور آئینی بادشاہ کے خلاف جو پہلا شب خون تاریخ میں نظر آتا ہے وہ برطانیہ میں جنرل کرام ویل کا تھا جو ایک مذہبی آدمی تھا۔
عجیب پارلیمینٹ تھی وہ جو اپنی مدت خود ہی بڑھاتی گئی جس طرح 1950’s کی دہائی میں ہماری پارلیمینٹ تھی نہ الیکشن کروانے کے لیے اور نہ ہی آئین دینے کے لیے تیار تھی۔ جنرل کرام ویل کے لیے یہ بڑا نادر موقعہ تھا، اس نے پارلیمینٹ کے اندر گھوڑے دوڑا دیے، بادشاہ کو سزائے موت دی بلکہ کئی لوگ مروا دیے، خون خرابہ کیا۔ مگر اس کی بد بختی کہ 1658ء میں یعنی نو سال بعد ہی سخت بیمار ہوا اور انتقال کرگیا، بادشاہت اور پارلیمینٹ واپس بحال ہوئیں اور جنرل کرام ویل کی لاش کو عبرت کے طور پر لندن میں قبر سے نکال کر سرعام لٹکایا گیا کہ شب خون کے اس خیال کا خاتمہ کیا جا سکے۔
جب فرانس کا بادشاہ کمزور ہوا، 1789ء کے فرینچ انقلاب نے اس کے اقتدار کا خاتمہ کیا، فرانس ریپبلکن ریاست بنا، پارلیمینٹ بنی مگر کمزور۔ اور اس طرح فوج کے کمانڈر نیپولین نے شب خون مارا اور جنرل کرام ویل کی طرح بادشاہ بن گیا۔ اور پھر بیس سال بعد بالآخر اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
ہٹلر جرمنی میں آیا تو جمہوریت کی سیڑھیاں چڑھ کر آیا تھا مگر وہ شب خون در شب خون مارتا گیا، پارلیمینٹ کے ذریعے اپنے آپ کو تاحیات صدر بنا کر پارلیمینٹ کو تحلیل کر دیا۔ پوری دنیا کو فتح کرنے کے چکر میں جب روس پہنچا تو نیپولین کی طرح اس کو بھی شدید شکستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہٹلر نے اپنے اقتدار کے فقط پندرہ برس ہی گزارے۔
لینن کا انقلاب بھی شب خون تھا۔ اور جس نظریہ کو وہ شب خون کے طور پر لے کر آیا تھا وہ ستر سال بعد بلآخر اختتام کو پہنچا۔ لاطینی امریکا سے لے کر افریقہ تک کئی شب خون مارے گئے۔ جمال ناصر نے مصر پر شب خون مارا۔ عراق پر شب خون مارا گیا، ایران پر شب خون مارا گیا، بادشاہ رخصت ہوا۔ جو شب خون جمہوریت اور آئین پر چلتی ریاستوں پر مارے گئے وہ زیادہ عرصے چل نہ سکے۔ وہ چاہے جنرل کرام ویل کا برطانیہ پر شب خون ہو یا پھر جنرل ایوب کا پاکستان پر۔ ملک میں آئین تھا ہی نہیں، آئین بنانے والوں نے آئین بنایا ہی نہیں اور جو آئین اس وقت بنا وہ وفاق کو مانتا ہی نہیں تھا۔
ایک ہی قومی اسمبلی تھی، سینیٹ کا وجود نہ تھا۔ ایک سال یا ہر ماہ بعد وزیر اعظم تبدیل ہوتا تھا۔ کمزور سول قیادت نے بلآخر فوجی سربراہ کا سہارا لیا۔ جنرل ایوب وزیر دفاع بنا۔ چالاکی سے اسکندر مرزا سے پارلیمینٹ کو تحلیل کرنے کا کہا گیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں اسکندر مرزا کو جہاز میں بٹھا دیا گیا، آئین کو معطل کر کے جنرل ایوب خود مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور یوں مارشل لا فاتح اور قوم مفتوح۔ اس قوم پر نافذ کر دیا گیا۔ اس وقت دارالحکومت ڈھاکا نہیں بلکہ کراچی تھا۔
اگر ڈھاکا ہوتا تو شاید شب خون کی تاریخ مختلف ہوتی۔ خیر کراچی نے بھی آمریت مسلط کرنے والوں کو تنگ کیا، وہ فاطمہ جناح کو اپنا لیڈر مانتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ دارالحکومت کراچی سے بھی رخصت ہوا۔ 1960ء میں جنرل ایوب نے ملک کو آئین بھی دیا۔ پارلیمنٹ بھی دی اور صدارتی نظام بھی بنایا۔ جنرل ایوب کا پہلا الیکشن براہ راست نہ تھا مگر دوسرا الیکشن براہ راست کروانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح سامنے آ گئیں۔ شیخ مجیب سے لے کر باقی تمام سیاستدان فاطمہ جناح کے پیچھے تھے اور بھٹو صاحب جنرل ایوب کے۔
پھر جنرل ایوب کے اقتدار پر شب خون مارا گیا۔ پہلا الیکشن وہ زبردستی جیت بھی گئے مگر خود ان کے جرنیلوں نے ان کو رخصت کیا۔ یہ سارا مسئلہ مشرقی پاکستان تھا، انتخابات ہوئے، کیا خبر تھی بنگال میں طوفان آئے گا اور مغربی پاکستان میں رہتے اقتدار نے ان کی نہ مدد کی نہ ہی مدد کو پہنچ سکے، شیخ مجیب نے اس بات پر واویلا مچایا، مشرقی پاکستان کے پاس جمہوریت اور آئین کے علاوہ رستہ نہ تھا۔ جب وہ جیتے تو ان کو اقتدار نہ ملا بلآخر پاکستان پر شب خون کے سائے نے ملک کو دو لخت کر دیا۔
خود بھٹو بھی شیخ مجیب کے خلاف شب خون میں شریک تھے اور پھر سات سال بعد خود ان کے خلاف شب خون مارا گیا۔ وہ پھانسی چڑھ گئے۔ شیخ مجیب کے خلاف بھی شب خون مارا گیا، وہ مارے گئے۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگا کر شب خون کی طرز پر آگے بڑھنا چاہا مگر چونکہ ہندوستان ایک بھرپور آئینی ریاست تھی لہٰذا سپریم کورٹ نے اندرا گاندھی کے آمر بننے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
یہ زمانہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ ہر شب خون کے پیچھے یا تو سویت یونین ہوتا تھا یا پھر امریکا کی سیاست۔ شب خون جو جنرل مشرف نے مارا وہ نواز شریف کے غیر مقبول طرز حکمرانی کی کوکھ سے پیدا ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جو بھی جمہوریت آئی ان پر 58(2)(B) کی تلوار لٹکتی رہی جو خود ایک شب خون کی شکل تھی۔ یہ دس سال بہت الجھے ہوئے گزرے۔ دو وزیر اعظم اگر گئے تو سپریم کورٹ کے آرڈر سے گئے مگر ان کی حکومت نہ گئی۔ پھر ہمارے ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان دو بڑی پارٹیوں کو شکست دے کر وزیر اعظم بنے۔
ہمارے وزراء اعظم نہ جانے کیوں یہ سمجھتے رہے کہ ان کو عوام نے نہیں کسی اور نے جتوایا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اور بھی کم کم وزیر اعظم ہوتے گئے اور بہت مدھم، بہت ہلکی موسیقی کے ساتھ، اقتدار یوں لگتا ہے ان کے ہاتھوں سے شفٹ ہوتا چلا گیا ہے، اور جہاں گیا ہے وہیں شب خون ہے۔