Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Takke Da Tamasha

    Takke Da Tamasha

    ہم آرٹیکل 226 کی بات بھی نہیں کرتے مگر ہم بات کرتے ہیں آرٹیکل 238اور239 کی۔ کیا آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کرے گی یا پھر کورٹ؟ اگر آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کرے گی توکیا سادہ اکثریت سے کرے گی؟ یا پھر دو تہائی اکثریت سے کرے گی؟ یا پھر ایک آرڈیننس ہی کافی ہے، پھرچاہے وہ آرڈیننس بعد میں منظورہو یا نہ ہو؟

    اس تمام صورتحال کو دیکھ کر آج مجھے شریف الدین پیرزادہ بہت یاد آئے۔ یہ وہ انسان تھے کہ جب ایوانوں میں جمہوریتوں کے خلاف سازشیں رچتی تھیں تو کم از کم حکمرانوں کو معقول مشوروں سے تو نوازتے تھے۔ جب بھی نظریہ ضرورت مسلط ہوا، جناب شریف الدین پیرزادہ صاحب پیش پیش ہوئے۔ اس بار اس ہائیبرڈ جمہوریت کے حکمرانوں کو جو آئینی و قانونی ماہرین کی ٹیم کی نصیب ہوئی ہے، ان کی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے کہ نہ وہ تیتیر نہ وہ بٹیر؛ کہ پہلے وہ آئین کے آرٹیکل 186کا براہِ راست استعمال کرتے ہوئے، پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے سیدھا سپریم کورٹ پہنچ گئے کہ جناب ہم پارلیمنٹ میں دو تہائی تو کیا سادہ اکثریت سے بھی ترمیم نہیں کرسکتے!!!

    ابھی یہ ریفرنس سپریم کورٹ میں ہی تھا کہ اب یہ براہِ راست آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں لے کر آگئے ہیں۔ عجب انوکھا قدم ہے یہ بھی تاریخ کا۔ شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ وہ جا نتے تھے کہ یہ بل وہ پاس نہیں کروا سکتے تھے لیکن وہ اس بل کو ایوان ِ زیریں میں لائے تاکہ یہ بتا سکیں کہ حزب ا ِختلاف ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہے مگر شاہ صاحب یہ نہیں بتا سکے کہ حاصل بزنجوصاحب کو سینیٹ میں ہرانے کی جو ہارس ٹریڈنگ ہوئی وہ کس نے کی؟

    آرٹیکل 226کا ہارس ٹریڈنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ بیلیٹنگ تو ہوگی، اوپن ہو یا پھر سیکریٹ۔ ہارس ٹریڈنگ تو تب بھی ہوگی، کنگز پارٹیاں تو تب بھی بنیں گی!!!دراصل اس کے ختم ہونے یا نہ ہونے کا تعلق جمہوریت کی ارتقاء کے سوال کے ساتھ منسلک ہے۔ خان صاحب نے اس ملک کی عوام سے ووٹ، کرپشن کے خاتمے کے نام پر لیا تھا مگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دوسرے ادوار کی بہ نسبت خان صاحب کی دورِ حکومت میں کرپشن زیادہ ہوئی ہے۔ آپ نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانا چاہا لیکن آپ نے ہر قدم اس کے برعکس اٹھایا۔ اس ملک کی معاشیات سے لے کر سیاسیات تک میں آپ نے بگاڑ پیدا کیے جن میں سدھار لانا اب آپ کے کنٹرول سے باہر ہے۔

    ہارس ٹریڈنگ ہو یا پھر کرپشن ان کا خاتمہ صرف جمہوری اداروں کے پروان چڑھنے سے ہی ہوگا۔ پنجاب اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ایک رکن استعفیٰ دے رہے ہیں یقینا اور ممبران بھی ان کا ساتھ ضرور دیں گے۔ خریدوفروخت کی جو ویڈیوز آجکل وائرل ہوئی ہیں ان کا تعلق پی ٹی آئی کے ممبران سے ہے۔ آپ کا اس بارے میں یہ کہنا ہے کہ ان کو پتا نہ تھا جب کہ آپ کی ہی ایک تقریر آن ریکارڈ ہے کہ اس بارے میں ان لوگوں کو سب پتا تھا۔

    وہاں تو جے آئی ٹی بنا کے اقامہ میں فارغ کرادیا، کیا یہاں پر بھی کوئی جے آئی ٹی بنے گی یا پھر آپ کے جو بھی لوگ ہیں، وہ سب محبِ وطن ہیں اور جو آپ کے ساتھ نہیں وہ سب غدار ہیں!!!! اگر آپ ہارس ٹریڈنگ کریں تو ٹھیک اگر حزبِ اختلاف کرے تو غلط۔ ہارس ٹریڈنگ کی معنی برطانوی اصطلاح میں کچھ اور ہے اور ہماری اصطلاح میں کچھ اور۔ ہارس ٹریڈنگ برطانیہ میں کچھ مخصوص حالات میں جائز ہے۔

    آئین تشکیل دینے والوں کو آج کل ہارس ٹریڈنگ کے زمرے میں شامل کیا جارہا ہے کہ آرٹیکل 226کے اندراج میں ان کی نیت اچھی نہ تھی۔ گویا آئین بنانا ان کے لیے کوئی بہت بڑا جرم ٹھہرا۔ ہماری ہائیبرڈ جمہوریت سے تعلق رکھنے والے مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں ان کو بہت قربت ہے ان تمام ادوار سے جب اس ملک میں آمریت رہی۔

    برما بھی آگے نکل گیا۔ یورپی یونین بھی ان پر پابندی لگا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے ہیں۔ رنگون میں لوگ سڑکوں پر نکل چکے ہیں۔ چھ دن سے وہاں سرکاری دفاتر کے ملازم احتجاجا ّ دفتاتر میں نہیں گئے۔ ترکی ہو یا روس یا پھر امریکا جہاں پر بھی جو ٹرمپ جیسی اشکال تھیں، وہ سب پسپا ہو چکی ہیں تو خان صاحب جو بھی زور زبردستی سے دستور پر اتر آئے وہ تاریخ کا حصہ بنے۔

    وہ پورا ریا ستی بیانیہ جو غداری یا پھر کرپشن پر بنا تھا اب مہنگائی کے سامنے ہار مان چکا ہے۔ دہلی میں مودی سرکار کے خلاف کسانوں کا کھڑا ہونا اور اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کا سراپا احتجاج ہونا، ان پر لاٹھی چارج ہونا، آنسو گیس کا استعمال ہونا ایک ہی تصویر کے دو رخ لگ رہے تھے۔ خاں صاحب کی پارٹی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جہانگیر ترین صاحب نے اس وقت اپنا کارڈ استعمال کرنے سے اجتناب برت لیا ہے اور پرویز خٹک صاحب بھی بہت کچھ بول رہے ہیں۔

    لگتا کچھ ایسے ہے کہ لانگ مارچ سے قبل، سینیٹ کے انتخابات میں ہی بات واضح ہو جائے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ پہلے جب بھی آمریت یا ہائیبرڈ جمہوریت کے ادوار آئے تو کم از کم ان کا دورانیہ دس سال کا رہا مگر اب تین سال بھی نکالنا مشکل نظر آرہا ہے۔ اب ایک نئے اور جدید عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا عمرانی معاہدہ طے نہیں پاتا تب تک اس ملک میں مکمل طور پر جمہوریت کی افزائش نہ ہوگی، ادارے مضبوط نہ ہوں گے اور ملک خوشحال نہ ہوگا۔ نہ ہی ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی۔

    ہندوستان کی معیشت سات فیصد سے بڑھ رہی ہے اور اسی طرح سے بنگلا دیش کی۔ مگر ہماری معیشت بجائے بہتری کے بدتری کا شکار ہے۔ جس کی بنیادی وجوہات ہماری داخلی سیاست اور سیاسی تضادات ہیں۔ شکریہ عمران خان صاحب کہ آپ پاکستان کو ایک جدید عمرانی معاہدے کی طرف لے آئے اور شکریہ پنجاب آپ کا بھی کہ آپ بھی آمریت کی باقیات سے باہر نکل آئے۔

    ہارس ٹریڈنگ اپوزیشن کی بساط نہیں بلکہ اقتداری پارٹی کا کھیل ہے۔ یہ بھی تو خاں صاحب کل پرسوں خود ہی فرما رہے تھے کہ سینیٹ کے انتخابات میں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ وہ کچھ کریں گے کہ وہ آرٹیکل 226 میں ترمیم نہ کرکے پچھتائیں گے۔

    آخرِکار یہ سب کیا تھا؟ کیا یہ سب آئین کی تذلیل کرناتھی۔ کیا آئین بنانے والوں اور پارلیمینٹ کو نیچا دکھانا تھا؟ ویسے ہی جیسے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کہتے تھے کہ آئین کی کیا وقعت ہے، فقط ایک کتابچہ ہے جس کو جب چاہے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے آئین کو فقط ایک آرڈیننس کے ہتھے چڑھا دیا۔ اب حالات تو بہادر شاہ ظفر کے جلا وطنی کے شہر رنگون میں بھی بدل چکے ہیں یہ تو پھر بھی پاکستان ہے جناب!!!!