Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Apne Hisse Ki Khushiyan Talash Karen

Apne Hisse Ki Khushiyan Talash Karen

سوال بڑا دلچسپ تھا لیکن میرے پا س اس سوال کا کو ئی جواب نہیں تھا۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا، اپنے ذہن پر زور دیا لیکن مجھ سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ انہوں نے وہی سوال دوسرے انداز میں دہرایا: "اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں اور چوبیس گھنٹوں کے بعد آپ کی زندگی ختم ہو جائے گی تو آپ اپنے چوبیس گھنٹے کیسے گزاریں گے"۔

میں نے عرض کیا: "سب سے پہلے اللہ کے سامنے گڑ گڑاؤں گا، اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا اور اسے راضی کرنے کی حتیٰ الامکان کو شش کر وں گا۔ اس کے بعد والدین اور بہن بھائیوں سے گلے ملوں گا، ان سے معافی مانگوں گا اور ان کی محبتوں، عنایتوں اوران کے پیار کا شکریہ ادا کروں گااور سب سے آخر میں، میں اپنے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے دوستوں سے گلے لگ کر ان کی جدائی کا ماتم کروں گا۔ اپنے گھرکے افراد، اپنے بھانجوں، بھتیجوں کو پیار کروں گا، گھر کی دیواروں اورکھڑکیوں کو چھو ؤںگا، اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے گلے مل کر آنسو بہاؤں گا، ان سب سے معافی مانگوں گا اور مرنے سے ایک گھنٹہ پہلے نماز میں کھڑا ہو جاؤں گا اور سجدے کی حالت میں موت کا انتظار کروں گا"۔

میرا جواب سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوشگوار لہجے میں بولے: "مجھے یقین تھا تمہارا جواب یہی ہوگا لیکن مجھے افسوس بھی ہے کہ تم اپنے جوا ب میں فیل ہو گئے ہو۔ تمہارے جواب کا صرف پہلا جملہ ٹھیک ہے اور اگلے پورے جواب میں تمہارے نمبر زیرو ہیں"۔ انہوں نے میرے چہرے پر بنے سوالیہ نشان کو دیکھ کر خود ہی وضاحت کی: "اکیسویں صدی کے ننانوے فیصد انسان اپنی زندگی سے ناخوش ہیں حالانکہ اکسویں صدی اور "سٹون ایج" میں بڑا فرق ہے۔ ہم دو ہزار سال پہلے کے زمانے کو "سٹون ایج" کا نام دیتے ہیں لیکن اس دور کا انسان آج کے انسان سے زیادہ خوش اور مطمئن تھا۔ آپ آج سے دو ہزار سال پہلے کی ہسٹری دیکھ لیں آپ کو پوری تاریخ میں خودکشی کا ایک بھی کیس نظر نہیں آئے گا۔

ہم سٹون ایج کی نسبت آج سہولتوں کی جنت میں رہتے ہیں، ہمارا لباس پتوں سے تھری پیس کی طرف منتقل ہوگیا ہے، ہماری خوراک جنگلی جانوروں کے شکار سے فاسٹ فوڈ کی طرف منتقل ہوگئی ہے، ہم غاروں سے نکل کر ایک سو دس منزلہ بلڈنگوں میں شفٹ ہو گئے ہیں۔ ہم اونٹ، خچر اور گھوڑے سے اتر کر ہوائی جہاز، ٹرین اور بی ایم ڈبلیو پر سوار ہو گئے ہیں، ہم جہالت سے نکل کر ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔

ہم نے سورج، چاند، ستاروں کو مسخر کر لیا ہے، ہم ہواؤں کو چیر کر آسمان اور چاند تک جا پہنچے ہیں، ہم نے سمندروں کی گہرائیوں میں آبدوزیں چلا دی ہیں، ہم نے پہاڑوں کو چیر کر ان سے سونا چاندی اور دیگر معدنیات نکال لی ہیں، ہم نے آندھیوں، سیلابوں اور زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے والا نظام نافذ کر لیا ہے اور اکیسویں صدی میں ہم نے مصنوعی بارش تک برسالی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم ناخوش بھی ہیں، شکوے بھی کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں سے پریشان بھی۔ اللہ نے ہمیں سمجھ بھی دی ہے، عقل اور فہم بھی لیکن اس کے باوجود ہم اپنی زندگیوں کو انجوائے نہیں کر پا رہے"۔

لیکن اس سارے فلسفے کا مذکورہ سوال کے ساتھ کیا تعلق؟ میں نے حیرت سے نظریں ان کے چہرے پر گاڑھ لیں۔ وہ بولے: "تم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہو اور اکیسویں صدی کی تمام سہولیات دستیاب ہونے کے باوجود تم اپنی زندگی اور اپنی زندگی کے آخر ی چوبیس گھنٹے ایک خوفزدہ اور ڈرپوک انسان بن کر گزارنا چاہتے ہو۔ ہمارے پاس زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، ہم زندگی کو روتے ہوئے گزار دیں، ہم زندگی کی تمام سہولیات دستیاب ہونے کے باوجود زمانے کی ستم ظریفیوں کا شکوہ کرتے رہیں، ہم اپنی سستی اور کام چوری کو بیماری کا نام دے دیں اور ہم اپنی ناکامی کو تعویز دھاگے سے منسوب کردیں، ہم اپنی زندگی کو آخری چوبیس گھنٹوں کی طرح روتے ہوئے، اپنے عزیزوں کو رلا تے ہوئے اور دوستوں کی جدائی کا ماتم کرتے ہوئے گزار دیں۔ دو، ہم اپنی زندگی رونے دھونے کے بجائے اللہ کو راضی کرنے اور زندگی انجوائے کرتے ہوئے گزاریں۔

ہم آخری چوبیس گھنٹوں کی طرح اپنی زندگی کے ایک ایک منٹ کو قیمتی بنائیں، ہم پہلے سے زیادہ ہنسنا شروع کر دیں، ہم والدین اور بہن بھائیوں کے گلے مل کر رونے کے بجائے ان سے خوب باتیں کریں، ان کے ساتھ کھیلیں، مل کر کھانا کھائیں، اپنی فیملی کے ساتھ مل کر باغ کی سیر کو نکل جائیں، تیراکی کے لئے چلے جائیں، دوستوں کے ساتھ مل کر گپ شپ کریں، کوئی اچھی سی گیم کھیلیں، قرآن کی تلاوت کا معمول بنائیں، نماز کی پابندی کریں، باوضو رہنے کی کوشش کریں اور جب موت کی گاڑی آئے ہم خوشی خوشی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے اس پر سوار ہو جائیں"۔

انہوں نے پہلو بدلا اور گویا ہوئے: "آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا استاد خوش ہے نہ طالب علم، جج خوش ہے نہ وکیل، سیاستدان خوش ہے نہ حکمران، عالم خوش ہے نہ دانشور، شاعر خوش ہے نہ فلسفی، کیوں؟ کیوں کہ ہم نے زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں سیکھا، ہم زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ زندگی اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کبھی زحمت نہیں ہوتی۔

ہمیں اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں خود تخلیق کرنا ہو تی ہیں، ہم طالب علم ہیں تو ہمیں کلاس میں اپنی خوشیاں خود ڈھونڈنا ہیں، ہم مصنف، شاعر، جج، وکیل، استاد، طالب علم، انجینئر، سائنسدان، ڈاکٹر، صحافی، ڈرائیور اور مزدور کچھ بھی ہیں ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں خود تلاش کرنا ہیں۔

خوشی کا وجود ہمارے دائیں بائیں ہی ہوتا ہے ہم نے صرف کان سے پکڑ کر انہیں سامنے لانا ہوتا ہے۔ اللہ نے ہر انسان کے حصے میں اس کی خوشیاں لکھی ہیں اگر ہم اپنے حصے کی ان خوشیوں کو نہیں سمیٹیں گے تو وہ خوشیاں کو ئی اور لے جائے گا۔ خوشی کی دیوی سب پر برابر مہربان ہو تی ہے اور وہ اپنے پر سب کے لیے پھیلاتی ہے لیکن یہ ہم ہیں کہ خود کو کوستے رہتے ہیں، دن میں بیس مرتبہ خودکشی کا سوچتے ہیں اور چالیس مرتبہ اپنے باس کو گالی دیتے ہیں"۔

وہ رکے تو میں نے عرض کیا "سر بجا کہ نوےفیصد پریشانیاں اور مصیبتیں ہماری اپنی سو چ اور خیا لا ت کا نتیجہ ہو تی ہیں لیکن کچھ لوگ حقیقت میں ان مسائل کا شکار ہو تے ہیں تو ایسے لو گ کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔ "انہوں نے گہرا سانس لیا اور بولے: "آج کیا تاریخ ہے؟" میں نے عرض کیا: "گیارہ اگست" وہ بو لے: "تمہیں یاد ہے پچھلے سال گیارہ اگست کو تم کہاں تھے، کس حالت میں تھے اور کیا کر رہے تھے؟"

میں نے کافی غور کیا لیکن میرا جواب نفی میں تھا، وہ بولے: "تمہیں معلوم ہے اگلے سال گیارہ اگست کو تم کہاں ہو گے؟" میرا جواب پھر نفی میں تھا۔ وہ بولے: "انسان دنیا میں جتنی مرضی تکلیفیں برداشت کر لے آخر کار وہ انہیں بھو ل جاتا ہے اور وہ سب دکھ، تکلیفیں اور مصیبتیں ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں لہٰذا آپ کا ماضی زیرو ہے، مستقبل کا آپ کو پتا نہیں، باقی بچا آپ کا حال (موجودہ زمانہ) تو آپ صرف اپنے حال کو ٹھیک رکھیں، اسے انجوائے کریں اور اس میں اپنی خوشیاں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یقین کریں اگر آپ نے اپنے حال کی خوشیوں کو کیش کر لیا تو آپ کی زندگی میں خوشیوں کا ایسا سیلاب آئے گا کہ آپ سر سے پاؤں تک خوشیوں میں ڈوب جائیں گے" وہ بات کرکے خاموش ہو گئے اور میں اپنے حصے کی خوشیاں تلاش کرنے کے لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔