Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Behissi Ka Menu

Behissi Ka Menu

دس مارچ کی صبح میں نے یہ خبر پڑھی تو مزید کچھ پڑھنے کی سکت نہ رہی۔ میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا، میں نے لیپ ٹاپ بند کیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر کچھ دیر کے لیے لیٹ گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور میں انہیں ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

مجھے نہیں معلوم میری یہ کیفیت کیوں ہے، کیا میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوں یا میرا دل کمزور ہے کہ ذرا سی بات پر بھر آتا ہے، کبھی کبھار مجھے لگتا ہے مجھے نفسیاتی ماہرین سے سیشنز لینے چاہئیں۔ جس دکھ، کرب، تکلیف، اذیت اور بے بسی کو ملک کا مقتدر طبقہ محسوس نہیں کرتا تو میں کیوں محسوس کرتا ہوں۔ جب پڑھے لکھے، مہذب، تعلیم یافتہ، مالدار اور خوشحال لوگ اس چیز کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو مجھ سے یہ کیوں نہیں ہوتا۔ جب اس ملک کے حکمران، بیوروکریسی، استاد، جج، وکیل، صحافی، مذہبی عالم اور سرمایہ دار یہ سب دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے باوجود نارمل رہتے ہیں تو میں کیوں ابنارمل ہو جاتا ہوں۔

میں خبر کی طرف آتا ہوں، میں نے اخبار پڑھنے کے لیے لیپ ٹاپ آن کیا تو پہلے ہی صفحے پر جس خبر پر نظر پڑی وہ یہ تھی کہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں گزشتہ روز ایک شخص نے اپنی چار سالہ بیٹی کو خود سے باندھ کر عباسیہ نہر میں چھلانگ لگا دی۔ محمد سلیم نامی شخص احمد پور شرقیہ کا رہائشی تھا اور گزشتہ کچھ عرصہ سے بے روزگار تھا۔ گھر میں بے روزگاری کے ڈیرے ہوں تو میاں بیوی کی بھی آپس میں نہیں بنتی، سلیم اور بیوی کا بھی آپس میں جھگڑا تھا۔ جھگڑا اور غربت دونوں سلیم اور اس کی بیٹی کو اٹھا کر عباسیہ نہر لے گئے۔

عینی شاہدین کے مطابق سلیم کچھ دیر نہرکنارے کھڑا رہا، پھر اس نے سر سے کپڑا اتارا، چار سالہ بیٹی کو اپنے سینے سے باندھا اور نہر میں چھلانگ لگا دی۔ کچھ دیر باپ بیٹی لہروں میں تیرتے نظر آئے اس کے بعد ان کی لاشیں نظر نہیں آئیں۔ ریسکیو ٹیمیں تاحال باپ بیٹی کی لاشیں تلاش کر رہی ہیں۔ سلیم نہر میں کودنے سے پہلے کتنی مرتبہ ذبح ہوا ہوگا، بیٹی کو سینے سے باندھتے ہوئے کتنے خنجر اس کے سینے پر چلے ہوں گے اور اس نے بیٹی سے کتنے جھوٹ بولے ہوں گے اور بیٹی نے اسے کتنے واسطے دیے ہوں گے؟

میں ابھی اس خبر کی اذیت اور کرب سے نہیں نکلا تھا کہ الگوردھم نے دکھوں کی ایک نئی پٹاری میرے سال کھول دی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ فیس، گوگل اور یوٹیوب کا الگوردھم ایسا ہے کہ آپ ان پر جو چیز دیکھ، سن یا پڑھ رہے ہوتے ہیں اس سے ملتی جلتی چیزیں آپ کے سامنے آ جاتی ہیں۔ میں نے یہ خبر پڑھی تو اس سے ملتی جلتی خبریں بھی سامنے آ گئیں۔ مثلاً چند ماہ پہلے کی ایک یہ خبر سامنے آ گئی کہ صوبہ سندھ کے شہر مٹیاری میں مہنگائی سے تنگ آ کر دکاندار نے روہڑی نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔

تفتیش ہوئی تو پتا چلا ریاض نامی یہ شخص مہنگائی سے تنگ تھا، گھریلو اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے اور بچوں کی سکول فیسیں بھی کئی ماہ سے ادا نہیں کر سکا تھا۔ اس سے اگلی خبر فیصل آباد کے علاقے محمود آباد کی تھی، یہ خبر پہلے بھی نظر سے گزری تھی اور اس نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس خبر میں جو دکھ اور تکلیف چھپی تھی وہ آج بھی زندہ ہے۔ پولیس کے مطابق فیصل آباد کے علاقے محمود آباد میں باپ نے پہلے اپنی دو بیٹیوں کو قتل کیا پھر خود بھی پھندے سے جھول گیا۔

علاقہ مکینوں کے مطابق متوفی اچھا انسان تھا مگر گھریلو حالات اور نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان تھا۔ قرض داروں کے مطالبے الگ تھے، بیوی جگر کے مرض میں مبتلا تھی جو علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے آٹھ ماہ قبل انتقال کر گئی تھی۔ متوفی نے خودکشی سے قبل ایک تحریر بھی لکھی جس میں ہدایت کی تھی کہ میرا سارا سامان ایدھی سنٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد کیا کوئی انسان نارمل رہ سکتا ہے؟ بیٹی کو سینے سے باندھ کر نہر میں کودنے کے کرب کو کوئی بھلا سکتا ہے اور بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے مار ڈالنے کی اذیت کو کوئی آسانی سے نظر انداز کر سکتا ہے؟

آپ کا جواب شاید ناں میں ہو لیکن میں بے حسی کے کچھ نمونے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جنہیں ان خودکشیوں، بیٹیوں کے دفن ہونے اور نہروں میں کودنے جیسے واقعات سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کے پیٹ مرغن غذاؤں سے بھرنے چاہئیں لوگ کس حال میں جی رہے ہیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو دن پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا وہ لیٹر آپ نے بھی دیکھا ہوگا جس میں رمضان کا چاند دیکھنے والے "ماہرین" کے لیے کھانا فرام کرنے کے لیے کوٹیشن طلب کی گئی تھی۔ اس لیٹر کے مطابق 22مارچ کو رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اوقاف آفس عید گاہ چارسدہ روڈ پر ہونا تھا اور اجلاس کے دوران کھانے کے لیے مختلف فرمز سے کوٹیشن طلب کی گئی تھیں۔

کھانوں میں دو کیٹگریز مطلوب تھیں، ایک وی آئی پی اور دوسرا عام افراد کے لیے۔ وی آئی پی کھانے کے لیے سو افراد کا کھانا مطلوب تھا جس کے مینیو میں چاول، دم پخت، سیخ کباب، چکن تکہ بوٹی، بیف چاول، مکس سبزی، رشین سلاد، فریش سلاد، حلوہ، بار بی کیو اور کولڈ ڈرنکس شامل تھیں۔ عام افراد کے لیے بھی سو افراد کا کھانا مطلوب تھا جس کے مینیو میں بیف چاول، چکن کڑاہی، مکس سبزی، نان اور کولڈ ڈرنکس شامل تھیں۔

کھانے کے بعد چائے کا بھی اہتمام تھا جس میں بلیک ٹی، پیسٹری، سینڈوچ اور بسکٹ شامل تھے۔ مینیو لسٹ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اگرچہ ایڈمنسٹریٹر اوقاف خیبر پختونخوا حامد علی نے کوٹیشن طلب کرنے کا یہ آرڈر منسوخ کر دیا تھا مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر یہ مینیو سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوتا تو یہ کوٹیشن نہ صرف جاری رہتی بلکہ یہ تمام کھانے اور لوازمات تیار کیے جاتے اور چاند دیکھنے والے "ماہرین" یہ سب ہڑپ کر جاتے۔

سوال یہ ہے کہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام جس سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں کیا محکمہ اوقاف کے ماہرین کو اس کا اندازہ نہیں ہے، کیا اس مینیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ایسے بے حس افسران کو کرسی پر رہنے کا حق ہے۔ شہباز شریف صاحب جس کفایت شعاری کی بات کرتے ہیں کیا یہ مینیو ان کی نظر سے نہیں گزرا، کیا انہوں نے اس کا کوئی ایکشن لیا؟ کیا یہ سفید پوش عوام کی توہین نہیں کہ وہ غربت سے خودکشیاں کر رہے ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔

کیا یہ افسران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ملک میں روزانہ ہونے والی خودکشیاں بھی ان کے دلوں میں احساس پیدا نہیں کر سکیں، کیا ان کے گھروں میں بیٹیاں نہیں ہیں کہ وہ سلیم اور ریاض کی بیٹیوں کا دکھ درد محسوس کر سکیں؟ کیا کوئی ہے جو اوقاف کے افسران سے ان دو سو افراد کی فہرست طلب کرے، ان سے سوال کرے کہ وہ سو وی آئی پی افراد کون ہیں جن کے لیے یہ عیاشیاں ارینج کی جا رہی تھی۔

میرا متعلقہ حکام سے مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی انکوائری کرائی جائی اور یہ مینیو جاری کرنے والے افراد کو حکومتی دفاتر سے نکالا جائے۔ انہیں کچھ مہینوں کے لیے بے روزگاری کی اذیت سے گزارا جائے اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ اس طرح کی حرکتوں سے عوام پر کیا گزرتی ہے۔ انہیں سکھایا جائے کہ تم لوگ اگر ملک، عوام اور خودکشیاں کرنے والے افراد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی حرکتیں ہی ٹھیک کر لیں۔

یقین جانیں اس ملک میں بے تحاشا وسائل اور مواقع موجود ہیں اگر اس ملک کو درد دل رکھنے والے اور عوام دوست حکمران مل جائیں تو یہ بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے مگر افسوس یہاں بے حسی کے اعلیٰ ترین نمونے تو موجود ہیں مگر درد دل رکھنے والے افسران اور حکمران ناپید ہیں۔