2017 میں برطانیہ کی تاریخ میں ایک بہت بڑا سائبر حملہ ہوا جسے "واناکرائے" حملے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس حملے نے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس سمیت دنیا بھر کے ہزاروں کمپیوٹرز کو متاثر کیا۔ واناکرائے حملے سے مریضوں کی دیکھ بھال سمیت اہم ڈیٹا ضائع ہوگیا۔ اس حملے کے بعد پہلی بار حکومت برطانیہ کو احساس ہوا کہ سائبر سکیورٹی صرف ایک آئی ٹی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے کروڑوں عوام اور ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس واقعے کے بعد برطانوی حکومت نے سائبر سکیورٹی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا، بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا، سائبر قوانین مزید سخت بنائے، ہسپتالوں، بینکنگ سیکٹر اور دیگر اہم اداروں میں سائبر حملوں سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔
کسی بھی حکومت کے لیے سب سے اہم چیلنج ترجیحات کا درست تعین ہوتا ہے، دنیا میں اکثر رائج جمہوریتوں میں حکومتی مدت چار یا پانچ سال ہوتی ہے اور حکومت کو انہی چار پانچ سال میں پرفارم کرنا ہوتا ہے۔ اگرکوئی حکومت پہلی ٹرم میں اچھا پرفارم کر جائے تو اگلے دس سال اسی کے ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں غلط چیزوں کو ترجیح بنا لیا جاتا ہے اور یہ غلط ترجیحات حکومت کے گلے کی ہڈی بن جاتی ہیں۔
آپ صرف سائبر کرائم کی مثال دیکھ لیں، پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کا سیلاب مشرف دور میں آیا تھا لیکن تب سے اب تک کسی حکومت نے سائبر سکیورٹی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا استعمال پچھلے دس سال میں صفر سے سو فیصد پر آگیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں سائبر کرائم سے نمٹنے کیلئے حکومتی ادارے اور انفراسٹرکچر وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ صرف 2023 میں پاکستان میں 500,000 سے زائد سائبر کرائمز کی رپورٹس سامنے آئیں اور ان میں سے بیشتر کی نوعیت مالی فراڈ اور ڈیجیٹل ہراسانی کی تھی۔
آپ دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان میں عمومی جرائم کے تدارک کے لیے ہر پندرہ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تھانہ قائم ہے لیکن سائبر کرائمز جیسے پیچیدہ اور جدید جرائم کے لیے نہ صرف تھانوں کی کمی ہے بلکہ کروڑوں کی آبادی کے حصے میں صرف ایک آفس آتا ہے۔ مثلاً لاہور کی آباد ڈیڑھ کروڑ کو چھو رہی ہے اور اگر لاہور ڈویژن کو دیکھا جائے تو اس کی آبادی دو سے ڈھائی کروڑ بنتی ہے لیکن پورے لاہور ڈویژن کے لیے صرف ایک سائبر کرائم آفس موجود ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ لاہور آفس نہ صرف لاہور بلکہ ساہیوال ڈویژن کی بھی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ پھر لاہور سائبر کرائم آفس میں بھی صرف 25 انویسٹی گیشن آفیسر ہیں اور یہاں آنے والے کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اس وقت بھی تقریباً 10,000 سے زیادہ انکوائریاں تعطل کا شکار ہیں اورکسی کیس کی انکوائری آنے میں ایک سال تک کا وقت لگ جاتاہے۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویژن میں صرف 13، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن میں 17 جبکہ بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان تینوں ڈویژنز میں صرف 18 انویسٹی گیشن آفیسر موجود ہیں۔ لاہور کے سائبر کرائم آفس کی صورتحال یہ ہے کہ اس کی اپنی کوئی مستقل عمارت نہیں ہے۔
ایک کرائے کے مکان کوہائر کرکے آفس ڈکلیئرکیا گیا ہے جس کی عمارت خستہ حال اور کسی بھی جدید دفتر کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ عوام کیلئے بیٹھنے کی کوئی جگہ ہے نہ ہی انہیں واش روم کی سہولت میسر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دفتر میں سٹاف کے بیٹھنے کیلئے بھی مناسب انتظام نہیں۔ عموماً سٹاف کو باری باری بیٹھنا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی منظم آفس کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس سنگین صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی پیچیدگی کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہر ضلع میں نہ صرف سائبر کرائم آفس قائم کیے جائیں بلکہ وہاں تربیت یافتہ اور ماہر انویسٹی گیشن آفیسرز کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔ اس کے ساتھ موجودہ سائبر کرائم دفاتر کو جدید ٹیکنالوجی، آلات اور سہولتوں سے لیس کیا جائے تاکہ وہ مؤثر طریقے سے اپنا کام انجام دے سکیں۔
سائبر کرائم کے کیسز میں جدید مہارتوں جیسے ڈیجیٹل فرانزک، نیٹ ورک ٹریسنگ اور ڈیٹا اینالیسس کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ عملے میں سے زیادہ تر کے پاس اس نوعیت کی تکنیکی تربیت نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے لیے جدید سائبر کرائم کی چھان بین مشکل ہو جاتی ہے۔ سائبر کرائمز کی تحقیقات دیگر روایتی جرائم سے بالکل مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان کیلئے مخصوص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تحقیقات نیٹ ورک ٹریسنگ، ڈیجیٹل فورنزکس، ہیکنگ کی تکنیک اور انٹرنیٹ پر ہونے والے جعلی معاملات کے تجزیہ پر مبنی ہوتی ہیں لیکن ہمارے تحقیقاتی اداروں اور ان میں بیٹھے افسران میں ان مہارتوں کی کمی ہے۔ بیشتر انویسٹی گیشن آفیسرز کو بنیادی کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کا استعمال تو آتاہے مگر وہ اس جدید ٹیکنالوجی اور طریقوں سے واقف نہیں ہیں جو سائبر کرائمز کی تحقیقات میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ سائبر کرائم کنٹرول کیلئے موجود مختلف اداروں کے درمیان تعاون کی کمی ہے۔ مختلف ایجنسیوں جیسے ایف آئی اے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے کام میں الگ تھلگ ہیں اور ان کے درمیان رابطہ کاری کی کمی ہے۔ نتیجتاً سائبر کرائمز کے معاملات میں تحقیقات میں تاخیر ہوتی ہے اور بعض اوقات ملزمان کو فرار ہونے اور بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ سائبر کرائم کنٹرول کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ لوکل جرائم کی نسبت سائبر کرائم بہت زیادہ حد تک بڑھ گئے ہیں اور آنے والے چند سال میں شاید لوکل تھانوں کا سارا رش سائبر کرائم تھانوں کی طرف منتقل ہو جائے۔ اس لیے حکومت کو سائبر کرائمز کنٹرول کے لیے ایک جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف موجودہ سائبر کرائمز کا تدارک کیا جا سکے بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے نئے خطرات سے بھی نمٹا جا سکے۔ اس کے لیے مختلف ایجنسیوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے ساتھ عوامی سطح پر آگاہی بڑھانا بھی ضروری ہے۔
لوگوں کو انٹرنیٹ کی سکیورٹی اور اپنے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت کے بارے میں تعلیم دی جائے۔ ایسی مہمات چلائی جائیں جو عوام کو سائبر کرائمز کے حوالے سے حساس بنائیں اور انہیں ان جرائم سے بچنے کے طریقے سکھائیں۔ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے سائبر کرائم کنٹرول کو اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا، سائبر کرائم تھانوں کی تعداد نہ بڑھائی اور جدید مہارتوں سے لیس افسران کا تعین نہ کیا تو سائبر کرائم مستقبل کے پاکستان کا سب سے بڑا ناسور ہوگا۔