Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Europe Ki Taraqqi

Europe Ki Taraqqi

پندرھویں صدی کے اختتام تک کولمبس اور واسگوڈے گاما نے نئے سمندری راستے اور نئی دنیائیں دریافت کرکے یورپ میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ برطانوی سامراجیت اور نوآبادیاتی نظام نے اس انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ ایک طرف کولمبس نے امریکہ دریافت کرکے اہل یورپ کے لیے امریکی دولت کے دروازے کھول دیئے تھے اور دوسری طرف واسکو ڈے گاما نے ایشیا کا سمندری راستہ ڈھونڈ لیا تھا جس سے یورپ کی ایشیا کے ساتھ تجارت دوبارہ بحال ہو چکی تھی۔

کولمبس امریکہ پہنچا تو اہل یورپ نے وہاں دھڑا دھڑ زمینیں خریدنا شروع کر دیں، زراعت اور صنعت و حرفت کا آغاز ہوا، مقامی لوگ کم پڑ گئے تو افریقہ سے غلام پکڑ کر لائے گئے اور ان سے جبری مشقت کا کام لیا گیا۔ افریقی غلاموں کو سمندری راستے سے امریکہ پہنچایا جاتا تھا اور جو جہاز میں مر جاتے انہیں سمندر میں پھینک دیا جاتا، تقریباً دس لاکھ افریقی غلام بنا کر امریکہ لائے گئے۔ امریکہ میں زراعت شروع ہوئی اور اس سے حاصل ہونے والی دولت یورپ منتقل ہونے لگی، یورپ کی ترقی میں اہم کر دار امریکہ سے لوٹی ہوئی دولت کا تھا۔ امریکہ میں جتنی بھی سونے اور چاندی کی کانیں اور دیگر معدنیات تھیں سب نکال کر یورپ روانہ کی جانے لگیں۔

1646 تک تقریباً 180 ٹن سونا اور 1700 ٹن چاندی یورپ بھیجی گئی۔ یورپ میں 1561 سے 1580 تک پچاسی فیصد چاندی امریکہ سے بھیجی گئی تھی، امریکی سرمایہ، سونا اور چاندی یورپ پہنچے تو یورپ کی معاشی حالت سنبھلنے لگی، تاجر اور سرمایہ دار طبقہ وجود میں آیا جس نے زراعت اور صنعت کو فروغ دیا، فیکٹریاں قائم ہونے لگیں، صنعتی انقلاب کی راہیں ہموار ہونے لگیں اور بین الاقوامی تجارت یورپ کے کنٹرول میں آ گئی۔

امریکہ کی دولت یورپ کے ہاتھ لگی تو یورپ میں دو طرح کے رجحان پروان چڑھے، ایک رجحان سپین، اٹلی اور پرتگال میں پروان چڑھا، ان ممالک نے اس دولت کو فضول خرچی، عیاشی اور جنگوں میں جھونک دیا، ساری دولت اسلحہ اور بارود خریدنے پر لگا دی، نتیجے میں یہ تینوں ممالک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے، اٹلی نے تو اپنا آپ سنبھال لیا لیکن سپین اور پرتگال تا حال پیچھے چلے آ رہے ہیں۔

دوسرا رجحان جرمنی، برطانیہ، آئر لینڈ اور ہالینڈ میں پروان چڑھا، ان ممالک نے اس دولت کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کیا۔ تعلیم آئی تو دانشور طبقے نے جنم لیا، نئے تخلیق کار ابھر کر سامنے آئے اور نئی ٹیکنالوجی وجود میں آنے لگی۔ سکالرز کی انجمنیں بنیں، بحث و مباحثہ ہونے لگا، نئی تحقیق اور نئی دریافتیں سامنے آنے لگیں۔

چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو یہ تحقیق چھپ کر سامنے آنے لگی، تحقیقی مقالے مقامی رسالوں اور جرنلز میں چھپنے لگے، ان پر تبصرے ہوتے، بحث و تحقیق کے لیے اکادمیاں وجود میں آئیں۔ سب سے پہلی اکادمی روم میں 1603میں منظر عام پر آئی، اس کے بعد 1633میں فلورنس، 1660میں رائل اکادمی لندن اور 1666 میں پیرس میں اس طرح کی اکادمیاں وجود میں آئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دانشور طبقے نے قدیم یونانی فلسفے کو بھی چیلنج کرنا شروع کر دیا جسے یورپ کیتھولک چرچ نے اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا تھا۔ اب مذہب اور سائنس آمنے سامنے آ گئے، یورپ اس وقت تک عقلیت پرستی کی راہ پر چل نکلا تھا اس لیے مذہب پیچھے رہ گیا اور سائنس جیت گئی۔

سائنس جیتی تو معاشرے کو اب سائنسی نکتہ نظر سے دیکھا جانے لگا، نئی نئی ایجادات وجود میں آئیں، عوام میں سہولت پسندی آ گئی، انسانی نفس کی تسکین سب سے بڑا مذہب قرار پایا۔ جب پادریوں اور مذہبی طبقے کی طرف سے مذہب کے احیا کی کوشش کی گئی تو مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر سیکولرزم کا فلسفہ گھڑا گیا۔ سترھویں صدی کے آغاز میں یورپی معاشرہ جاگیرداری کے چنگل سے نکل کے تاجروں اور سرمایہ داروں کے قبضے میں آ چکا تھا۔

یورپ اندرونی طور پر خوشحال ہو رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نوآبادیات سے حاصل ہونے والی دولت نے ان کے وارے نیارے کر دیئے تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے قیام اور اس کے دوام میں تاجروں اور سرمایہ داروں کا بڑا ہاتھ تھا، یہ وہ لمحہ تھا جب یورپ اور یورپی تہذیب نے دنیا کے دیگر ممالک اور تہذیبوں کو پیچھے چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھنے کا سفر شروع کر دیا تھا۔

امریکہ کی دولت لوٹنے کے ساتھ اسی طرح کا کھیل ہندوستان کے ساتھ کھیلا گیا۔ یورپ کی ترقی کی زنجیریں کسی خاص قوم یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ اس کی کڑیاں دنیا کے اکثر علاقوں، خطوں اور اقوام کے خون پسینے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ پہلے انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بہانہ بنا کر ساحلی علاقوں پر تجارتی کوٹھیاں قائم کیں، پھر ان کی حفاظت کے لیے فوج رکھنا شروع کر دی، جب برصغیر کے راجہ آپس میں لڑتے تو انگریز سے فوج اور اسلحہ کرائے پر لے لیتے۔ اب انگریز تجارتی کوٹھیوں سے نکلا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا بنگال کے قلب تک جا پہنچا۔

انگریز یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے، جب امریکہ سے حاصل ہونے والی دولت نے انہیں عیش پرست بنا دیا تو وہ سامان تعیش خریدنے دنیا میں ہر جگہ پہنچے۔ قرون وسطیٰ میں اپنی غربت کی وجہ سے یہ لوگ صرف اونی کپڑا پہنتے تھے اور سوتی کپڑا ان کے لیے ایک خواب ہوتا تھا۔ ڈھاکہ کی ململ ساری دنیا میں مشہور تھی، جب انگریز نے یہ کپڑا انگلستان برآمد کرنا شروع کیا تو ہندوستان کا مزدور اور کسان خوشحال ہوا لیکن اس کی خوشحالی کو اس وقت نظر لگ گئی جب یورپی تاجروں نے براعظم امریکہ میں کپاس کی کاشت شروع کر دی۔

اب کپاس کے بھرے ہوئے جہاز امریکہ سے یورپ پہنچنے لگے، انگلستان میں صنعتی سرگرمیاں تیز ہوئیں، تاجروں اور سرمایہ داوروں نے نئی نئی فیکٹریاں قائم کیں، مزدور خوشحال ہوا تو معاشرے میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں، اب دستکاری کی جگہ بڑی بڑی مشینیں آ گئیں، انڈسٹری وجود میں آئی تو اس سے متعلقہ علوم بھی درسگاہوں میں پڑھائے جانے لگے جس کے نتیجے میں یورپ میں ٹیکنالوجی کو باقاعدگی کی شکل مل گئی۔ انگلستان نے خود سوتی کپڑا بنانا شروع کیا تو ہندوستانی مارکیٹ بیٹھ گئی، ہندوستان میں کپڑا وافر مقدار میں بنتا تھا لیکن اب اس کا کوئی خریدار نہیں تھا۔ برآمدات رکیں تو مزدور فارغ ہوگیا اور معاشرے کی ترقی رک گئی۔

انگلستان میں صنعتی انقلاب آیا تو عالمی اقتصادی صورت حال بدلنے لگی، دنیا کی اکانومی کو یورپ کنٹرول کرنے لگا اور دنیا کا سارا سرمایہ یورپ میں اکٹھا ہوگیا۔ دوسری طرف ہندوستان اور امریکہ کی مقامی مارکیٹیں بیٹھ گئیں اور ان علاقوں کے کسان اور مزدور کنگال ہو گئے۔