بورکم جرمنی کا خوبصورت شہر اور اہم ساحلی بندرگاہ ہے۔ یہ جرمنی کے شمال میں موجود مشرقی فریزیائی جزائر کا حصہ ہے۔ یہ جزیرہ اپنی قدرتی خوبصورتی، وسیع ریتلے ساحلوں اور صحت بخش سمندری ہوا کے لیے مشہور ہے۔ بورکم کا اقتصادی دارومدار سیاحت اور ماہی گیری پر ہے اور یہاں کے ساحلوں کو مختلف آبی کھیلوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ اپنی متنوع حیاتیات خصوصاً پرندوں اور سمندری حیات کے لیے مشہور ہے۔
بورکم کے ساحلوں پر کارگو اور تجارتی جہازوں کی آمدورفت بھی عام ہے جو اس خطے کی اقتصادی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل بورکم کے ساحل پر ایک انڈین کارگو جہاز لنگرانداز ہوا جس کی سرگرمیوں کو مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا اس جہاز میں انڈین اسلحہ تھا جوحالیہ جنگ میں اسرائیل کو فراہم کرنے کے لیے اس بندرگاہ پر پہنچایا گیا تھا۔
تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق بورکم کے ذریعے بھیجے جانے والے اسلحے میں جدید ٹینک، راکٹ لانچرز اور دیگر مہلک ہتھیار شامل تھے۔ ان ہتھیاروں کی مالیت 20 ملین ڈالر سے زائد تھی۔ فلسطین میں اقوام متحدہ کے کیمپوں اور فلسطینی عوام پر ہونے والے حملوں میں بھی انڈین ساختہ اسلحہ استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ تحقیقاتی رپوٹس میں یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے استعمال کیے گئے کئی جدید ہتھیار انڈیا کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔ مزید برآں اسرائیل کے زیر استعمال کئی ہتھیار اور جنگی آلات انڈیا کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کا نتیجہ ہیں۔
حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں اسرائیل اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی قربت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ انڈیا اور اسرائیل کے درمیان دفاعی تعلقات ایک طویل عرصے سے جاری ہیں لیکن حالیہ تناظر میں ان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کے جدید ترین "آئرن ڈوم" دفاعی نظام کی تیاری میں انڈیا کی تکنیکی معاونت اور مالی شراکت شامل رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کیے گئے ڈرونز اور سائبر وارفیئر سسٹمز فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔
زرعی شعبے میں اسرائیلی ٹیکنالوجی انڈیا کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ "ڈرپ اریگیشن" اور دیگر جدید زرعی تکنیکوں کی انڈیا منتقلی انڈیا کی زرعی معیشت کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ سفارتی میدان میں بھی انڈیا اور اسرائیل ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں فلسطینی عوام کے حق میں آنے والی قراردادوں پر انڈیا کا اسرائیل کے حق میں ووٹ دینا اس کی واضح علامت ہے۔ انڈیا کے رویے نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کا ایک مضبوط اتحادی ہے۔
فلسطینی عوام پر جاری مظالم پر انڈیا کی خاموشی اسرائیل کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔ انڈیا کی حکومت نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرنے کے بجائے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر اسرائیل کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے تعلقات فلسطین کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کا دفاعی اور سفارتی تعاون فلسطینی عوام کے حقوق کو مزید دبا سکتا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے ذریعے اسرائیل اپنے عسکری منصوبوں کو مضبوط کر رہا ہے جبکہ انڈیا اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے۔
ایسی صورتحال میں اسلامی ممالک کو بھی مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے سفارتی، اقتصادی اور سیاسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی کو ایک مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اہل فلسطین کے دکھوں کا مداوا لازم ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کے پاس دنیا کے مجموعی تیل کے ذخائر کا 57 فیصد ہے اور ان کی مجموعی جی ڈی پی 27 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود فلسطین کے مسئلے پر او آئی سی کوئی مؤثر اقدام نہیں کر رہی جو بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔
او آئی سی نے 2023 میں دو ہنگامی اجلاس منعقد کیے تھے لیکن نتیجے میں کوئی عملی حکمتِ عملی یا اقدامات سامنے نہیں آئے۔ قراردادیں تو منظور کی گئیں لیکن اسرائیل کے خلاف اقتصادی یا سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ فلسطین کو او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے جو امداد دی جا رہی ہے اس کا حجم بہت کم ہے جبکہ اس کے برعکس اسرائیل کو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے 3.8 بلین ڈالر سالانہ امداد مل رہی ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک کو آگے بڑھ کر غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح انڈیا اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کررہے ہیں او آئی سی کے رکن ممالک کو اس سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ او آئی سی اگر کچھ کرنا چاہے تو وہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک پر تیل اور تجارتی پابندیاں عائد کر سکتی ہے جیسا کہ 1973 میں عرب ممالک نے کیا تھا۔ غزہ میں برپا ہونے والی قیامت کے پیش نظر لازم ہے کہ مسلم دنیا اپنی معاشی اور سیاسی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینی عوام سمیت عالم اسلام کے تحفظ و دفاع کے لیے عملی اقدامات کرے۔ وگرنہ مستقبل کی تاریخ او آئی سی اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کوبے بس اور بے حس حکمرانوں کے طور پر یاد کرے گی۔
انڈیا اسرائیل گٹھ جوڑ کو دیکھتے ہوئے لازم ہے کہ مسلم ممالک بھی امت مسلمہ کے تصور کو عملی طور پر اپنائیں اور ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ مسلم ممالک کے پاس تیل، گیس، قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت جیسے مضبوط عوامل موجود ہیں لیکن ان میں اتحاد کی کمی ان کی طاقت کو محدود کر رہی ہے۔ اگر امت مسلمہ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی سطح پر اتحاد قائم کرلے تو یہ نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک مضبوط آواز بھی بن سکتی ہے۔
یہ اتحاد نہ صرف مسلم ممالک کو بھارت اور اسرائیل جیسے گٹھ جوڑ کا مؤثر جواب دینے کے قابل بنائے گا بلکہ دنیا بھر میں مظلوم مسلم کمیونٹیز خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے حقیقی حمایت فراہم کر سکے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ دوبارہ امت کے تصور کو اپنائے اور دنیا کو اپنا وجود تسلیم کرنے پر مجبور کردے۔