Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Hum Khud

Hum Khud

دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں مختلف کہاوتیں مشہور ہیں۔ دنیا میں جتنی بھی کہاوتیں، محاورے اور ضرب الامثال مشہور ہیں ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، واقعہ یا سبق ضرور موجود ہے۔ کہاوت صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے اور جو محاورہ اور کہاوت کسی قوم کے بارے میں مشہور ہو جائے اس میں اس ملک اور قوم کی اجتماعی نفسیات کا تاثر کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے۔

دنیا بھر کی کہاوتوں کی طرح پاکستانی عوام کے بارے میں بھی ایک کہاوت مشہور ہے کہ اگر یہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنا چاہتے تو یہ اسے فوراً امریکہ اور سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت سو فیصد درست ہے اور یہ کہاوت پاکستانی قوم کی اجتماعی نفسیات کی بہترین عکاس ہے۔ ہم اپنی ہر غلطی اور ہر گناہ کا ذمہ دار امریکہ اور سیاستدانوں کو ٹھہراتے ہیں اور خود ایسے صاف ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی مکہ سے پیدل حج کرکے آئے ہیں۔ ہم اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کے بحر الکاہل کو امریکہ سے منسوب کرکے سمجھتے ہیں ہم دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔

ہماری روش بن چکی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی ہے۔ ہم وہ کبوتر ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرکے سمجھتا ہے سب ٹھیک ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم پانچ وقت کی نماز ادا نہیں کرتے، روزانہ قرآن کو ہاتھ نہیں لگاتے، درود شریف اور استغفارکی تسبیح نہیں کرتے تو اس سب کے پیچھے امریکہ کی کوئی سازش ہے اور نہ سیاست دان اس کے ذمہ دار ہیں۔

ہم اگر والدین کا احترام نہیں کرتے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتے، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام نہیں کرتے اور ان کی بات نہیں مانتے، اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ اور خیرات نہیں کرتے، زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، خوشی اور غمی کی رسموں پر سادگی کو نہیں اپناتے تو میرے خیال میں اس کے پیچھے بھی کوئی صیہونی سازش کارفرما نہیں ہے۔ ہم اگر ٹیکس ادا نہیں کرتے، قانون کی حکمرانی کو نہیں مانتے، ٹریفک سگنلز کی پابندی نہیں کرتے، قطار میں کھڑے نہیں ہوتے، بل وقت پر ادا نہیں کرتے تو یہ ہماری اپنی بد تہذیبی اور بد قسمتی ہے اس کے پیچھے کوئی سازش ہرگز نہیں۔

ہم اگر اپنے گھروں کو صاف نہیں رکھتے، اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، اپنے فرائض دیانتداری سے سر انجام نہیں دیتے، آفس وقت پر نہیں پہنچتے، اپنے گھر کے باہر باغیچہ نہیں بناتے اور اسے صاف نہیں رکھتے، فٹ پاتھ پر نہیں چلتے، اپنی لائن میں ڈرائیو نہیں کرتے، سڑک اور شاہراہ کو صاف نہیں رکھتے، ریلوے اسٹیشن اور ایئرپورٹ پر تھوکنے اور پچکاریاں مارنے سے باز نہیں آتے تو یقینا ہماری اپنی ذات میں نقص ہے اس کے پیچھے کوئی سیاستدان نہیں ہے۔

ہم اگر اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کر پاتے، لڑنے جھگڑنے سے باز نہیں آتے، ایمانداری سے کام نہیں کرتے، وقت کی پابندی نہیں کرتے، کھانا وقت پر نہیں کھاتے اور سیر ہونے سے پہلے ہاتھ نہیں کھینچ لیتے، ہم اگر روزانہ ورزش نہیں کرتے، اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے، صبح جلدی نہیں اٹھتے، روزانہ باتھ نہیں لیتے، اچھی خوشبو استعمال نہیں کرتے، اچھے دوست نہیں بناتے، اچھی گیم نہیں کرتے، روزانہ مسواک نہیں کرتے، اچھی کتابیں نہیں پڑھتے، اچھے لوگوں سے نہیں ملتے، اچھی صحبت میں نہیں بیٹھتے اور اچھی محفلوں میں نہیں جاتے تو یقینا اس سب کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔

ہم اگر اپنے چوبیس گھنٹو ں میں سے سولہ گھنٹے پڑھائی اور مطالعہ پر خرچ نہیں کرتے، اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکالتے، اپنی فیملی کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھتے اور ہم اگر اپنے وقت کو صحیح طرح مینج نہیں کرتے تو میرے خیال میں اس کے پیچھے را کا ہاتھ ہرگز نہیں ہے۔ میں اگر صبح کھلی فضا میں لمبی لمبی سانسیں نہیں لیتا، موسم، بارش، پھولوں اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز نہیں ہوتا تو یقینا یہ میری ذات کا نقص ہے۔

ہمارا تاجر اگر جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا، دکاندار گاہک سے مسکرا کر نہیں ملتا، سرکاری ملازمین عوام سے خوش اخلاقی سے پیش نہیں آتے، پولیس، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکمے عوام کی داد رسی نہیں کرتے تو میں بالیقین کہتا ہوں اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہرگز نہیں ہے۔ اکاؤنٹ آفس اگر رشوت لینے سے باز نہیں آتا، سرکاری بابو اور زگوٹا جن ٹائپ کلرک مٹھی گرم کیے بغیر کام نہیں کرتے، کمیشن دیئے بغیر میرا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں بنتا، ایک ماہ کی تنخواہ دیئے بغیر میری چھ ماہ کی سیلری ریلیز نہیں ہوتی، پٹواریوں کی ڈیمانڈ پوری کیے بغیر مجھے فرد نہیں ملتی اور میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود پانچ دس لاکھ دیئے بغیر اگر مجھے سرکاری نوکری نہیں ملتی تو میں حلفیہ کہتا ہوں کہ اس کے پیچھے موساد کا ہاتھ ہرگز نہیں ہے۔

میں اگر بجلی چوری سے باز نہیں آتا، پُر امن شہری نہیں بنتا، ملکی قوانین اور مفادات کا خیال نہیں کرتا، ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنواتا، اپنے متعلقہ سیاستدان، ایم این اے اور ایم پی اے کا احتساب نہیں کرتا، میں اگر اچھے اخلاق نہیں اپناتا، بلا وجہ ہارن بجانے سے باز نہیں آتا، سوری اور معذرت کرنے میں پہل نہیں کرتا، کسی کو دکھ دینے اور تکلیف پہنچانے سے باز نہیں آتا، سلام کرنے میں پہل نہیں کرتا، مہمان کی مہمان نوازی نہیں کرتا تو یقین کریں یہ سازش امریکہ میں تیار ہوئی ہے نہ یہودیوں نے اس کی پلاننگ کی اور نہ ہی سیاستدان اس کے پیچھے ہیں۔

ہم عجیب قوم ہیں، ہمارے جتنے بھی مسائل اور ایشوز ہیں وہ سب ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ان کے ذمہ دار ہم خود ہیں لیکن ہم اپنے تمام مسائل اور تمام جھگڑوں کا دوش امریکہ اور سیاستدانوں کو دیتے ہیں اور خود کو پاک صاف ڈکلیئر کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے پچانوے فیصد مسائل خود حل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کریں گے، کیوں؟ کیونکہ اس کے لیے ہمیں خود کو بدلنا پڑے گا، ہمیں اپنی ہٹ دھرمی، سستی اور غفلت کو چھوڑنا پڑے گا اور ہمیں تن آسانی اور آرام پسندی سے نکلنا پڑے گا۔ جس دن ہم نے یہ کر لیا، ہم نے خود کو بدل لیا اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا عزم کر لیا اس دن ا مریکہ ہمارے سامنے آئے گا اور نہ سیاست دان ہمارے راستے میں ٹھہر سکیں گے۔