Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Irtiqa Ke Mukhtalif Tasawurat

Irtiqa Ke Mukhtalif Tasawurat

دور جدید کا غالب ترین مذہب "لادینیت" ہے اور ساری دنیا کی سائنس اور فلسفہ مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ انسانی زندگی سے مذہب اور خدا کو نکال دیا جائے۔ اس لادینیت کا سب سے اہم ہتھیار نظریہ ارتقا ہے کہ انسان خود خدا ہے، وہ جس طرح چاہے اپنی مرضی سے زندگی گزارے۔

آج ہم اسی نظریہ ارتقا کے مختلف تصورات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ارتقا کا پہلا نظریہ یہ ہے کہ جاندار کی کسی ایک قسم کے اندر ارتقا کو مانا جائے، مثلاً انسان ہے تو اس کے اندر ارتقا کی مختلف صورتیں یہ ہو سکتی ہیں کہ اس کی آئندہ نسلوں کا رنگ تبدیل ہو جائے، اس کا قد چھوٹا بڑا ہو جائے، اس کے ہاتھ پاؤں کی شکل و صورت بدل جائے وغیرہ اس کو مائیکرو ایوولوشن، اڈاپٹیشن یا انٹرا سپیشیز ایوولوشن کہتے ہیں۔ اس میں کسی جاندار کی ذات میں تبدیلی تو ہو سکتی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ جاندار کسی دوسری مخلوق میں تبدیل ہو جائے مثلاً انسان ہے تو کسی دوسری مخلوق میں تبدیل ہو جائے۔

ارتقا کا دوسرا تصور Darwinian ہے۔ اس تصور کے مطابق تمام جاندار جن میں حیوانات و نباتات سب شامل ہیں ایک سنگل سیل سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کائنات کی تمام جاندار اشیا و اجسام کا منبع وہ سنگل سیل ہے جسے زندگی کا درخت Tree of Life کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق آج دنیا میں جتنے بھی حیوانات و نباتات موجود ہیں وہ سب اسی سنگل سیل کی ارتقائی صورت ہیں۔ اس نظریہ ارتقا میں دو چیزیں اہم ہیں، نیچرل سلیکشن اور رینڈم میوٹیشن۔

نیچرل سلیکشن کا مطلب ہے جو جاندار اپنے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کر لیتے ہیں صرف وہی زندہ رہتے ہیں اور انہی کی نسل آگے بڑھتی ہے۔ رینڈم میوٹیشن کا سادہ مطلب ہوتا ہے جینیاتی کوڈ میں زبان کی تبدیلی۔ اس کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ مثلاً ایک سیل میں معمول سے ہٹ کر مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، سیل کا ایک رپیئرنگ سسٹم ہوتا ہے جو ان تبدیلیوں کو ریپئر کرتا رہتا ہے۔

اب اگر کوئی تبدیلی اس قدر طاقتور ہو کہ اس ریپئرنگ سسٹم سے بھی بچ جائے تو اس کو ہم رینڈم میوٹیشن کہہ سکتے ہیں۔ اس میوٹیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اتنا طاقتور اور متاثر کن ہو کہ ہمارے پہلے سے موجود جینیٹک سسٹم میں تبدیلی پیدا کر سکے اور وہ جرم لائن میوٹیشن ہو کہ اگلی نسلوں میں بھی سرایت کر سکے۔

اس کو ہم مثال سے سمجھتے ہیں، مثلاً ایک انسان کے چہرے کا جو رنگ ہے اس کا کوڈ اور اس کی ساری تفصیل اس کی جینیٹک میں لکھی ہوئی ہے۔ اب اگر کسی والدین میں میوٹیشن کے نتیجے میں جینیٹک میں تبدیلی آ گئی اور اس کا رنگ سفید سے سیاہ ہوگیا تو یہ ارتقا کی ایک صورت ہو سکتی ہے لیکن اس کو ارتقا کہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ چہرے کی یہ سیاہ رنگت بعد میں آنے والی ساری نسلوں میں سرایت کر جائے اور اس نسل کا کوئی فرد اس تبدیلی سے نہ بچا ہو۔ لیکن میوٹیشن کے نتیجے میں ہونے والا یہ ارتقا بھی صرف انسان کی ذات میں تبدیلی تک محدود ہوتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ انسان کسی اور مخلوق میں تبدیل ہو جائے۔

اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم اس میوٹیشن کو ایک سپیشز سے کسی دوسری سپیشز میں تبدیل ہونے کے لیے فرض کریں، یا ہم یہ فرض کریں کہ انسان میں کچھ اضافی خصوصیات پیدا ہو جائیں مثلاً اس کے پر نکل آئیں کہ وہ ہواوں میں اڑنا شروع کر دے یا مچھلی کی طرح اس کی دم نکل آئے اور وہ سمندروں میں تیرنا شروع کر دے تو اس کے لیے کتنی مدت درکار ہوگی۔

میوٹیشن کے نتیجے میں ایک سپیشز کے کسی دوسری سپیشز میں تبدیل ہونے کی جو بہترین مثال ماہرین ارتقا کے پاس موجود ہے وہ وہیل مچھلی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق وہیل مچھلی پہلے Pakicetus نامی ایک خشکی کا جانور تھا جو گیدڑ یا لومڑی کی شکل جیسا تھا۔ (اس کو پاکی سیٹس کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس کا فوسل پاکستان کے کسی علاقے سے ملا تھا) کروڑوں سال پہلے یہ خشکی پر رہتا تھا، پھر یہ سمندروں کے نزدیک رہائش پذیر ہوا اور وہاں سے یہ میوٹیشن کے نتیجے میں ارتقا کرتا ہوئی وہیل مچھلی بن گیا اور اس تبدیلی کو جو مدت لگی وہ کم از کم گیارہ ملین سال تھی۔

پاکی سیٹس سے وہیل مچھلی تک کے اس سفر کی جو مدت ماہرین بتاتے ہیں وہ بہت کم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کا کوئی بھی جانور ہو تو اس کی دم کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے جو اسے پانی میں تیرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ گویا وہ ایک مشین ہوتی ہے جو اسے پانی میں تیرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور اس مشین کو وجود میں لانے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ بعض سائنسدانوں نے میوٹیشن کے عمل کا تخمینہ لگاتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکی سیٹس سے وہیل مچھلی کی صرف دم پیدا کرنے کے لیے جو مدت درکار ہے وہ چالیس سے چھیالیس ملین سال ہے اور اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکی سیٹس اور وہیل کا آپس میں جو ربط جوڑا جاتا اس کہ وجہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں کے کان کی ہڈی مشترک ہے۔

سائنسدانوں نے فوسلز میں دیکھا کہ پاکی سیٹس اور وہیل کے کان کی ہڈی ایک جیسی ہے لہٰذا وہیل کا جد امجد یہی ہوگا۔ اب اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صرف ایک سپیشز سے دوسرے سپیشز میں تبدیلی کے لیے اتنی لمبی مدت درکار ہے مثلاً پاکی سیٹس سے وہیل تک کے سفر کے لیے تقریباً چار کروڑ سال درکار ہیں تو اس وقت دنیا میں موجود اربوں کھربوں مخلوقات کے لیے ہمیں کتنی مدت درکار ہوگی۔ لامحالہ طور پر ہمیں کھربوں سال بلکہ ان گنت مدت درکار ہوگی۔

یہاں ہمارا ایک اور سوال سے سامنا ہوتا ہے، مثلاً سائنس کے مطابق کائنات کی عمر ساڑھے تیرہ ارب سال ہے، زمینی سیارے کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے اور زمین پر زندگی کو وجود میں آئے تین ارب اسی کروڑ سال ہوئے ہیں۔ اب اگر ہم ارتقا کے مذکورہ نظریے کو مان لیتے ہیں تو ایک سنگل سیل سے کھربوں مخلوقات کے پیدا ہونے کے لیے یہ مدت بہت کم ہے۔ تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ اس کا حل ہمارے پاس صرف یہی بچتا ہے کہ اگر ہم نے ارتقا کو ماننا ہی ہے تو ہم اس کو خدا کے تصور کے ساتھ مانیں کہ کائنات کی ابتدا سے بھی کھربوں سال پہلے کوئی ذات تھی جس نے زندگی کی شروعات کر رکھی تھی۔

ارتقا کا تیسرا تصور یہ ہے کہ کسی سپیشز میں مخصوص حالات کے تحت کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے اور وہ ا س کی نسل میں جاری ہو جائے اور یہ ممکن ہے، اس کو ایپی جینیٹکسEpigenetics کہتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی انسان بہت محنتی ہے، کام کی وجہ سے اس کے ہاتھ سخت ہو گئے ہیں، مسلز بہت مضبوط ہو گئے ہیں تو ممکن ہے اس کی یہ صفات اس کی نسل میں بھی منتقل ہو جائیں۔ یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے اور ممکن ہے۔ لیکن ارتقا کی یہ صورت بھی صرف انسان کی ذات میں ارتقا کو مانتی ہے ایسا نہیں ہے کہ انسان کوئی اور مخلوق بن جائے گا۔

ارتقا کا ایک تصور Gradualism یعنی بتدریج ارتقا کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف سپیشز کے اندر لاکھوں سال کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جو اچانک کسی بہت بڑی تبدیلی کی صورت میں رونما ہو جاتی ہیں اور وہ سپیشز کسی دوسری سپیشز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یعنی مائیکرو ارتقا میکرو ارتقا کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اکثر سائنسدان اسی بات کو بنیاد بناتے ہیں کہ جب مائیکرو لیول پر ارتقا کو مان لیا تو لازم ہے کہ میکرو لیول کے ارتقا کو بھی تسلیم کیا جائے۔

اس تھیوری میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے ہمیں فوسلز درکار ہوتے ہیں جن سے یہ ثابت کیا جائے کہ مختلف انواع میں یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوئیں اور آخر میں وہ کسی دوسری سپیشیز میں تبدیل ہوگئی جبکہ سائنسدانوں کے پاس ایسا کوئی فوسل ریکارڈ نہیں ہے بلکہ محض ظن و تخمین سے کام لیا جاتا ہے۔ فوسلز کی اس مشکل سے بچنے کے لیے سائنسدانوں نے ایک نئی تھیوری وضع کر لی کہ لاکھوں سال تک ایک سپیشز اپنے اصل وجود میں چلتی رہتی ہے پھر اچانک اس میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور وہ اچانک کسی دوسری سپیشز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اچانک کسی دوسری سپیشز میں بدل جانے کا نظریہ محض اس لیے گھڑا گیا کہ بتدریج ارتقا کو ثابت کرنے کے لیے جن فوسلز کی ضرورت ہے وہ سائنسدانوں کے پاس نہیں ہیں لہٰذا انہوں نے بتدریج ارتقا کا ہی انکار کر دیا۔