Tuesday, 03 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Islami Riwayat Aur Siasi Taamul

Islami Riwayat Aur Siasi Taamul

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ریاستی تعاون و تعامل سے انکار کی روایت اسلامی روایت کے عہد طفولیت میں شروع ہو چکی تھی۔ مشہور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام اعظم ابو حنیفہؒ کو چیف جسٹس کے عہدے کی پیشکش کی مگر امام صاحب نے اسے قبول کرنے سے ا نکار کر دیا۔ اس مجلس میں کافی بحث و تکرار ہوا لیکن امام صاحب اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہے جس کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑا، تشدد بھی برداشت کیا اور ان کا جنازہ بھی جیل سے نکلا۔ امام جعفر صادقؒ کو بھی وقت کے حکمران کی خواہش ٹھکرانے کی پاداش میں زہر دیا گیا۔

امام مالکؒ کو ریاستی تعامل سے انکار پر گرفتار کیا گیا اور انہیں سر عام کوڑے مارے گئے۔ امام احمد بن حنبلؒ کو ریاستی تعامل سے انکار پر جو سزائیں ہوئیں وہ زبان زد عام ہیں۔ انہیں بیڑیاں پہنائی گئیں، کوڑے لگائے گئے اور لہولہان کر دیا گیا مگر اس کے باوجود وہ ریاستی تعامل کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ ان اصحاب عزیمت نے ریاستی تعاون و تعامل کی پُرکشش آفرز کو اس لیے ٹھکرایا کہ وہ حکومت و ریاست کی ترجیحات اور مفادات کو سمجھتے تھے اور انہیں اندازہ تھا کہ ان آفرز کو قبول کرنے سے وقتی طور پر ان کی ذات کو تو فائدہ ہوگا لیکن مستقبل اور بعد کی دینی روایت کے لیے یہ آفرز نقصان دہ ثابت ہوں گی۔

آج بھی اسلامی روایت بحیثیت مجموعی اسی تسلسل پر عمل پیرا ہے۔ آج ایک سوال نما اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ریاست سے تعاون و تعامل میں کیا حرج ہے؟ بظاہر یہ سوال بہت سادہ اور معصومانہ ہے مگر ہر معصوم دکھنے والی شئے کے اثرات و نتائج عموماً گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ یہ بات Understood ہے کہ پاکستانی حکومت کے انتظامی ڈھانچے کی ترتیب و تشکیل اور اسے چلانے کا بندو بست عموماً پاکستان سے باہر ہوتا ہے۔ حکومتوں کے آنے جانے کے فیصلے عموماً لندن، دبئی، امریکہ یا سعودی عرب میں ہوتے ہیں۔ جب حکومت سازی کے فیصلے باہر ہوتے ہیں تو اسے چلانے کے لیے پالیسیاں بھی وہیں سے درآمد کی جاتی ہیں اور نائن الیون کے بعد جو پالیسیاں درآمد کی گئیں مدارس ان میں سر فہرست تھے۔

مدارس اسلامی تہذیب و ثقافت کا وہ مورچہ ہیں جنہیں عالمگیریت، مغربیت اور سرمایہ داریت اپنے خلاف آخری مورچہ سمجھتے ہیں۔ ان تینوں نظریات میں قدر مشترک یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کے ہر نظریے، مذہب اور فلسفے کو "قومیا" لیا ہے۔ بدقسمتی سے مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی نظریہ حیات کے مختلف ورژنز کو بھی "قومیا" لیا گیا اور صرف وہ اسلامی ممالک اس قومیانے کی پالیسی سے محفوظ رہے جہاں مدارس کا اثر و رسوخ قائم تھا۔ ایسے ممالک میں قومیانے کی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے مقامی حکومتوں اور ریاستوں کو Engage کرکے اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی اور پاکستان میں یہ ریاستی کوششیں پچھلے تیس سال سے زور و شور سے جاری ہیں۔

پاکستان کی حد تک تاحال یہ کوششیں بار آور نہیں ہو سکیں البتہ جن افراد اور اداروں نے انفرادی طور پر ریاستی تعاون و تعامل کو قبول کیا انہیں بہت جلد اس کے نتائج بھگتنا پڑے اور ان نتائج نے اسلامی روایت کے اجماعی مؤقف کو درست ثابت کیا۔ آج اگر اسلامی روایت مغربیت، عالمگیریت اور سرمایہ داریت کے منہ زور اثرات کے باوجود مدارس کے ساتھ اپنے مستقل وجود اور ثابت قدمی کے ساتھ موجود ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی تعاون و تعامل کے حوالے سے اس کی حساس مزاجی کے رویے نے اس کی بقا و دوام کے اسباب فراہم کیے ہیں۔

آج اسلامی روایت سے جڑے وہ افراد یا ادارے جو اپنی "سادگی" کی بنا پر ریاستی تعاو ن و تعامل کوایک "بے ضرر" شئے سمجھ کر قبول کرنے پر آمادہ بلکہ قبول کر چکے ہیں وہ اس کے دور رس نتائج سے شعوری یا غیر شعوری طور پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ بظاہر آج اس تعاون و تعامل کے ا ثرات نظر نہیں آ رہے مگر مستقبل میں یہ اثرات و نتائج ظاہر و باہر ہوں گے۔ یہ اصول ہمیشہ کارگر رہا ہے کہ کسی اسٹیبلش روایت یا ادارے میں اثر و نفوذ کے لیے ابتدا میں بظاہر بے ضرر طریقہ کار اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ جب اثر و نفوذ کا راستہ ایک دفعہ کھل جاتا ہے تو غیر محسوس طریقے سے اس میں رنگ بھرنا شروع کیا جاتا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بطور دینی ادارہ 1879 میں قائم ہوئی تھی اور نواب آف بہاولپور جامعۃ الازہر کی طرز پر ایک دینی ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ ایک عرصہ تک یہ ادارہ بطور مدرسہ کام کرتا رہا، بڑے بڑے شیخ الحدیث یہاں تعلیم و تدریس میں مشغول رہے مگر اس کے بعد جو ہوا اور اس وقت جامعہ کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے جن اداروں اور افراد نے ریاستی تعاون و تعامل قبول کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اس کے نتائج و اثرات کا فیصلہ وقت کرے گا اور وقت کے پاس ایسے غلط فیصلوں کے پریشان کن نتائج کی بیسیوں شہادتیں موجود ہیں۔

اسلامی روایت اگر ریاستی تعاون و تعامل سے استغنا پر کھڑی تھی تو اس کی کچھ وجوہات تھیں۔ انتہائی کٹھن حالات اور ضرورت و احتیاج کے باوجود بھی اگر حکومتی تعاون کو قبول نہیں کیا گیا تو یہ محض جذباتی نہیں بلکہ شعوری فیصلہ تھا۔ حکومتوں اور ریاستوں کے ہمیشہ اپنے مفادات اور ترجیحات ہوتی ہیں، دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ جب باگ ڈور نئی نسل کے ہاتھ میں آتی ہے تو بتدریج نتائج بدلنا شروع ہوتے ہیں اور تب واپسی کے راستے کا انتخاب ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی و ریاستی تعاون و تعامل قبول کرنے والے اداروں اور افراد کو اسلامی روایت نے کبھی قبول نہیں کیا اور بحیثیت مجموعی انہیں کبھی پذیرائی نہیں ملی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی روایت میں شعوری طور پر ریاستی تعاون و تعامل سے اجتناب برتا گیا ہے اور وقت نے اس اجتناب و انکار کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کیا ہے۔ اسلامی روایت کے عہد طفولیت میں ہی ریاستی تعامل کی صورتیں پیش آئیں مگر امام اعظم ابوحنیفہؒ اور ان کے معاصرین نے ذاتی مفادات کے حصول کے بجائے دینی روایت کو مقدم رکھا اور ہر طرح کے ریاستی مناصب اور تعامل کو یکسر مسترد کر دیا۔ بعد کی اسلامی روایت میں بھی یہ عمل مسلسل جاری رہا اور آج بھی اسلامی روایت اسی تسلسل پر عمل پیرا ہے اور جن افراد اور اداروں نے حکومتی تعاون و تعامل کو قبول کیا یا مختلف این جی اوز سے راہ و رسم بڑھائی اسلامی روایت نے انہیں قبول کیا نہ سماج نے انہیں پذیرائی بخشی۔

اس لیے اسلامی روایت کے تاریخی تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو افراد یا ادارے ریاستی تعامل یا اس کی جدید شکل یعنی این جی اوز کے ساتھ تعاون کو ایک بے ضرر شئے سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں، موجودہ اسلامی روایت نے تو ان کے کردار کی نفی کی ہی ہے مستقبل کا مؤرخ بھی اسلامی روایت کی تشکیل و تدوین میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہوگا۔