Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Kya Hum Tayyar Hain

Kya Hum Tayyar Hain

جاپان میں کہاوت مشہور ہے کہ جاپانی سورج کی اولاد ہیں اور انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے جا پا نی خو د کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے تھے اور ان کا نعرہ تھا "جنوبی ایشیا صرف جا پا نیوں کے لیے ہے"، وہ 1937سے1945تک اسی جذبے کے تحت لڑتے رہے۔ اگست 1945میں امریکہ نے ہیرو شیما اور نا گا ساکی پر بم برسائے اور جا پانیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ سورج کی اولا د کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا اوراحساس تفا خر کی گو د میں پلی قوم کے لیے شکست تسلیم کر نا ممکن نہیں تھا لیکن بہر حال شکست کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

14اگست1945کی شام شاہ جا پان آن ایئر ہو ئے اور انہوں نے اپنی قو م کے نا م ایک ریڈیا ئی پیغام نشر کیا "ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم امن کی بنیا د رکھنا چاہتے ہیں، ہم انہیں ایک ایسا ملک دینا چاہتے ہیں جو امن کا علمبردار ہو، جس کی بنیادیں اقتصادی خود مختاری پر رکھی گئی ہوں اور جو ساری دنیا کے لیے ایک مثال ہو۔ ا س کے لیے ہمیں سخت محنت کر نا پڑے گی، ہمیں اپنے احساس برتری سے نکلنا ہو گا، ہمیں آنے والی دنیا کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہو گا اور ہمیں اپنی مو جو دہ شکست کو تسلیم کر نا ہو گا، آج ہمیں وہ برداشت کر نا ہے جوپہلے ہمارے لیے نا قابل برداشت تھا اور آج ہمیں وہ تسلیم کر نا ہے جسے ہمارے دل و دماغ تسلیم نہیں کر نا چاہتے"جیسے ہی یہ پیغام نشر ہوا جا پانی قوم دھاڑیں مار کر رونے لگی، ان کے لیے یہ پیغام مو ت سے زیادہ تکلیف دہ تھا، کئی جاپانیوں نے اپنے آپ کو اسی غم میں ہلا ک کر لیا، بعض انتہا پسندوں نے شاہ کو روکنے کی کو شش کی کہ وہ یہ پیغام ریڈیو پر نہ نشر کر یں لیکن جب وہ اس میں کا میاب نہ ہو ئے تو متعدد قوم پرستوں اور فوجی جرنیلوں نے خود کشی کر لی۔

ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تبا ہی کے بعد جا پان بالکل بدل چکا تھا، ساری صنعتیں تباہ ہو چکی تھیں، ملیں اور فیکٹریاں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں، لاکھوں لو گ مو ت کی وادی میں جا چکے تھے، ہزاروں جا پانی زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھے، کنویں زہر آلو د تھے، ہوا زہریلی گیسوں کا مرکب بن چکی تھی اور پو رے جا پان میں مو ت کا راج تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جا پانیوں نے اپنے احساس برتری سے نکل کر حقیقت کی آنکھ سے دیکھنا شروع کیا تھا، انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی اور اب وہ ایک نئے جا پان کی بنیا د رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد جا پانیوں نے اپنی تما م تر توجہ سا ئنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادیا ت کی طرف مو ڑ دی، ہر جا پانی نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگا ئی اور مصنوعات تیار کر نا شروع کر دیں، وہ لو گ سولہ سولہ گھنٹے کا م کر نے لگے، انہوں نے اپنا نظام تعلیم درست کیا، نیا نصاب ترتیب دیا، ذہین اسٹوڈنٹس کو امریکہ اور یو رپ کی اعلیٰ یو نیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے بھیجا، پرا ئمری کے اساتذہ کی تربیت کی، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنا یا اور پو ری جا پا نی قوم نے امانت، دیانت، وقت کی قدر اور وطن کی محبت کو اپنا ما ٹو بنا لیا۔ پھر کیا ہوا، صرف تیس سال بعد تاریخ بدل گئی اورہیرو شیما اور نا گا ساکی پھر جا پا ن بن گئے۔

جاپا نی مصنوعات امریکی، یورپی اور ایشیائی منڈیوں میں راج کر نے لگیں اور الیکٹرونکس اور آٹو مو بائل کے شعبے میں جا پان دنیا کا امام بن گیا۔ خود امریکی اپنے ملک کی چیزیں چھو ڑ کر جا پانی مصنوعات کو ترجیح دینے لگے، 1945کے بعد جا پان امریکہ کا مقروض تھا لیکن اب امریکہ جا پان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور آج بھی کہا جا تا ہے جا پان سب سے بڑا مہا جن اور امریکہ سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ ایک دور میں امریکی کمپنی آئی بی ایم کمپیوٹر کی دنیا میں سب سے آگے تھی اورا سے کمپیوٹر کی دنیا کا دیو کہا جا تا تھا، آئی بی ایم والے جا پان کی کمپیوٹر بنا نے والی کمپنیوں کا مذاق اڑاتے ہو ئے کہتے تھے آئی بی ایم اگر چھینک بھی ما رے تو ساری جا پا نی کمپنیاں ہوا میں اڑ جا ئیں لیکن پھر ایک دور آیا کہ جا پانی ساری کمپیوٹر انڈسٹری پے چھا گئے اور آئی بی ایم سے زیادہ ماہر کمپیوٹر مارکیٹ میں لا کر رکھ دیے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم بھی حقیقت کی آنکھ سے حالات کا مشاہدہ کریں اور آئندہ بیس تیس سال کی اقتصادی پالیسی وضع کر کے جاپانیوں کی طرح اس میں جت جائیں۔

جب تک قوم کا ہر فرد اس دوڑ میں شامل نہیں ہو گا تب تک تبدیلی نہیں آئے گی اورجب تک پاکستان کا ہر شہری خود کو اقتصادی پر مضبوط نہیں کرے گا تب تک یہ ملک مضبوط نہیں ہو گا۔ جب تک ہماری حکو مت چھوٹی انڈسٹری کو فروغ نہیں دے گی تب تک ہمارا کسان، مزدور، ترکھا ن، معمار، لوہار اور کاریگر خود مختار نہیں ہو سکے گا۔ اٹھارہ کروڑ عوام کو مچھلیاں پکڑ کر کھلا نا اور لنگر خانے تعمیر کرنا حکومت کا کام نہیں، اب ہمیں اس زعم سے نکلنا ہو گا، ہمیں جا پانیوں کی طرح گھروں میں فیکٹریاں لگا نی ہوں گی، ہماری خواتین سارا دن گھر میں بیٹھ کر مکھیاں مارتی ہیں، یہ مقامی سطح پر کو ئی بھی پرو ڈکٹ تیار کر سکتی ہیں۔ ہمارے نوجوان سڑکوں پر گھو منے اور چوکوں چوراہوں پر محفلیں سجانے میں بڑے ماہر ہیں، یہ ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں اور کام کے کلچر کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، ہمیں اپنی سوسائٹی میں کا م کے کلچر کو پروموٹ کر نا ہو گا۔ اگر ہم، ہمارے حکمران اور عوام واقعی چاہتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آئے تو ہمیں آئندہ بیس تیس سال کے لیے جا پا نی بننا ہو گا۔

موجودہ ملکی حالات نے ہر باشعور شخص کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ ملک کس سمت جار ہا ہے، معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، ڈالر مستقبل قریب میں بھی رکتا نظر نہیں آ رہا، تیل کے قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ روپے کی ویلیو انتہائی حد تک گر چکی ہے اور افغانستان جیسے ملک کی کرنسی ہم سے زیادہ ویلیو اختیار کر چکی ہے۔ ڈالر، تیل اور سونا وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کے مہنگا ہونے سے تمام ضرورت کی اشیا خود بخود مہنگی ہوجاتی ہیں۔ ڈالر مہنگا ہونے سے قرضوں کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے، گورنمنٹ نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے اس کی تمام شرائط مان لی ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے قرضہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو آئی ایم ایف سمیت انٹرنیشنل لابیز ہماری ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہمیں میزائل سازی سے روکا جا سکتا ہے، ایٹم بم کسی تیسری طاقت کے حوالے کرنے کا آپشن دیا جا سکتا ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ یہ بڑی الارمنگ صورتحال ہے اور ہمیں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ صورتحال میں ہماری سب سے بڑی کمزور ی ہمارا فکری انتشار اور سیاسی انتہا پسندی ہے، ہم اپنے لیڈر کے سوا کسی دوسری سیاست دان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور جانبین سے سمجھا یہ جار ہا ہے کہ مخالف لیڈر ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دارہے۔ یہ سیاسی انتہا پسندی کسی طور نیک شگون نہیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور سب کو اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم نازک حالات سے گزر رہے ہیں، ملکی صورتحال کسی صورت طور اطمینان بخش نہیں، اپنی حد تک مثبت رویہ اپنائیں اور اپنے ہر قول و فعل میں ملکی سلامتی کو مد نظر رکھیں۔