Thursday, 02 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Libas Ki Nafsiyat

Libas Ki Nafsiyat

لباس کی نفسیات(Psychology of dress) ایسا علم ہے جو انسانی لباس کے انتخاب، سماج پر اس کے اثرات اور اس کے پیچھے موجود ذہنی، سماجی اور ثقافتی عوامل کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس علم کا آغاز 19 ویں صدی کے آخر میں ہوا جب نفسیات اور سماجیات کے ماہرین نے لباس اور سماج کے باہمی تعلق کا مطالعہ شروع کیا۔

مغربی دنیا میں اس موضوع پر ابتدائی کام مشہور نفسیات دان ولیم جیمز اور ماہر سماجیات تھارن سٹائن ویبلین نے کیا۔ بعد میں 20ویں صدی کے وسط میں فیشن اور نفسیات کے باہمی تعلق پر مزید تحقیق کی گئی جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح لوگ لباس کے ذریعے اپنی شناخت، رویے اور سماجی حیثیت کوظاہر کرتے ہیں۔ Psychology of dress پر غور کیا جائے توکچھ اہم حقائق سامنے آتے ہیں۔

مثلاً یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ لباس انسانی نفسیات اور رویوں پرکچھ اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ ایک طرف یہ صاحب لباس کی شخصیت اور رویے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف دیکھنے والوں کے ذہن میں ایک تاثر پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے جسم کو چھپانا بنیادی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اگر کوئی مردوعورت اپنی فطرت سے ہٹ کرکوئی لباس پہنتا اور اپنے جسم کی نمائش کرتا ہے تو اس کے لباس کی نفسیات سماج کو ایک پیغام دے رہی ہوتی ہیں۔

یہ پیغام جب سماج سے ٹکراتا ہے تو سماج کا وہ طبقہ جو جنسی خواہشات پر قابو نہیں رکھتا وہ جرائم کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش عموماًکسی گھناؤنے جرم کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ یہ بات تسلیم کہ صرف لباس ہی جنسی جرائم کی وجہ نہیں بنتا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات مثلاًاخلاقی تربیت کی کمی، جنسی بے راہ روی کی ترویج، میڈیا کے ذریعے غیر اخلاقی مواد کی فراہمی، قانون کی کمزوری، جرائم کی عدم سزااورمرد اور عورت کے درمیان حدود کا ختم ہونابھی ان جرائم کی اہم وجوہات ہیں لیکن لباس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کا اہم اور ابتدائی عامل ہوتا ہے اور یہیں سے جنسی جرائم کی نفسیات پران چڑھتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عورت کی حیا اور مرد کی فطرت کے بارے میں جو رہنمائی فراہم کی ہے وہ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ سورۃ الاحزاب میں نبی اکرم کی ازواجِ مطہرات کو ہدایت دی گئی ہے کہ اپنی آوازوں کو نیچا رکھیں تاکہ کوئی شخص جس کے دل میں مرض ہے وہ بہک نہ جائے اور آپ میں دلچسپی لے کر نہ بیٹھ جائے۔ یہ آیت صرف ازواجِ مطہرات کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کے لیے رہنما اصول ہے۔

یہ آیت ایک طرف خواتین کی عفت و حیا کی نشان دہی کرتی ہے اور دوسری طرف مرد کی نفسیات اور مرد کے سماجی رویوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مرد کی فطرت کو اللہ نے عورت کی طرف مائل پیدا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عورت کی آوازکو بھی مرد کے بہکنے کا سبب ٹھہرایا ہے۔ اگر عورت کی صرف آواز سے مرد بہک سکتا ہے تو اس کے غیر مناسب لباس کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ آج بحیثیت مجموعی سماج میں خواتین کے لباس کے نام سے جس چیز کو پروان چڑھایا جا رہا ہے یہ نہ صرف مردوں کی فطرت کو آزمانے کے مترادف ہے بلکہ معاشرے میں اخلاقی زوال کا اہم سبب بھی ہے۔

2023 میں خواتین کے خلاف ہراسانی کے 4500 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے متعلق تھی۔ یہ اعداد و شمار ہمارے تعلیمی اداروں میں خواتین کے لباس اور مخلوط ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ غیر مناسب لباس، مخلوط ماحول اور دینی تعلیمات سے دوری ان مسائل کے بڑے عوامل ہیں۔

دوسری طرف عالمی سطح پر ایسے تجربات کیے گئے ہیں جنہوں نے لباس اور انسانی رویوں کے درمیان تعلق کو واضح کیا ہے اور ہم پچھلے کالم میں اس پر بات کر چکے ہیں۔ اسلام نے عورت کی عزت اور وقار کے تحفظ کے لیے پردے کا جونظام متعارف کرایاہے اس کا مقصد عورت کو صرف جسمانی طور پر محفوظ رکھنا نہیں بلکہ اسے اخلاقی تحفظ بھی فراہم کرنا ہے۔ معاشرتی اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عورت کا غیر مناسب لباس صرف مردوں کی فطرت کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرتی توازن کو متاثر کرتی ہے۔

جب عورتوں کے لباس پر بات کی جاتی ہے تو عموماً یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا چھوٹی بچیوں کے ساتھ ریپ بھی ان کے لباس کی وجہ سے ہوتا ہے؟ ہم پہلے تسلیم کرچکے ہیں کہ جنسی زیادتی جیسے جرائم کبھی صرف عورت کے لباس یا اس کے جسمانی ظہور کی وجہ سے نہیں ہوتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے جرائم کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم وجہ عورت کاغیر مناسب لباس ہی ہوتا ہے۔

اسلامی تعلیمات اور دنیا بھر کے حقوق انسانی کے اصول یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشرتی ماحول، عورت کا غیر مناسب لباس، مرد و عورت کے مابین حدود کو ختم کرنا اور ان کی اخلاقی تربیت کی کمی ایسے جرائم کی اہم وجہ ہوتی ہے۔ معاشرے کی اخلاقی تربیت اور اصولوں کا اثر سماج کی بُنت پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اسلامی اقدار، اخلاقی تعلیمات اورپردہ جیسے اصولوں کو اہمیت دیتا ہے تو یہ مرد و عورت دونوں کے لیے ایک اخلاقی اور محفوظ ماحول کا ضامن ہوتا ہے۔

یہ کہنا کہ جنسی جرائم کی شرح میں لباس کا کوئی تعلق نہیں ایک غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے کیونکہ معاشرے میں لباس شخصیت اور معاشرتی رویوں کی ایک اہم علامت سمجھا جاتا ہے۔ جب سماج میں رہنے والے مرد و عورت مخصوص لباس پہنتے یا مخصوص رویہ اپناتے ہیں تو وہ ایک خاص پیغام دے رہے ہوتے ہیں جو معاشرے میں رہنے والے انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی لباس کو اس لیے اہمیت دی گئی ہے تاکہ مردوعورت اپنی فطری حیا اور وقار کو محفوظ رکھ سکیں اورناپسندیدہ رویوں سے بچ سکیں۔

پیمرا، ایچ ای سی اور دیگر انتظامی ادارے اگر اس مسئلے پر توجہ دیں توسماج میں ایک مثبت تبدیلی جنم لے سکتی ہے۔ خصوصاًمیڈیا اور تعلیمی اداروں میں لباس کے اسلامی اصولوں کے حوالے سے ضابطہ اخلاق مرتب کرنا اور اس پر عمل درآمد کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ضابطہ اخلاق صرف ایک انتظامی عمل نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

یونیورسٹی سطح پر کیے جانے والے مختلف مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طلبہ و طالبات کی اکثریت مخلوط ماحول اور مردو خواتین کے غیر مناسب لباس کی وجہ سے تعلیمی ماحول میں سنجیدگی کی کمی محسوس کرتی ہے۔ 65 فیصد طلبہ نے کہا کہ لباس کے حوالے سے واضح اور راہنما اصول ہونے چاہئیں تاکہ تعلیمی ماحول میں غیر ضروری عوامل سے بچا جا سکے۔

آج ہمیں ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو صرف تعلیم نہ دے بلکہ طلبہ کے اخلاق و کردار کو بھی سنوارے۔ لباس کے اسلامی اصولوں کو اپنانے سے نہ صرف خواتین کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ تعلیمی اداروں کا ماحول بھی پاکیزہ اور علم دوست بنے گا۔