اسلام اپنے اصولوں اور تعلیمات کے ذریعے ہر دور کے انسانو ںلیے رہنمائی فراہم کرتا آیا ہے۔ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ایک طرف ابدی اصولوں پر قائم ہے تو دوسری طرف وقت کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کا حل دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ابدی اصولوں اور نئے مسائل کے درمیان توازن برقراررکھنا ایک مشکل امر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں امت میں روایت اور تجدد کے نام سے دو مختلف فکری دھارے دکھائی دیتے ہیں۔
روایت دین کے اصولوں پر استقامت اور استحکام کی علامت ہے جبکہ تجدد دین کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے نام پر دین کا حلیہ بگاڑنے کا نام ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دین ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے جو ہر دور کے انسان کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کی بنیاد ایسے اصولوں پر رکھی گئی ہے جو نہ تو وقت کے ساتھ فرسودہ ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص تہذیب یا معاشرت تک محدودہیں۔ یہ اصول ابدی اور آفاقی ہیں لیکن ان کا اطلاق وقت اور حالات کے مطابق حکمت اور بصیرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
آج کا انسان تبدیلی کا طلبگار ہے۔ وہ روایت کو جمود سمجھتا ہے اور جدیدیت کو آزادی لیکن یہ بات اہم ہے کہ آزادی صرف وہی معتبر ہے جواسلام کے اصولوں کے دائرے میں رہ کر حاصل کی جائے۔ اگر آزادی کے نام پر ہر حد توڑ دی جائے تو معاشرے میں بے ترتیبی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ دین نے ہمیں وہ آزادی دی ہے جو اسلام کے اصولوں کے ساتھ جڑی ہو۔
دین کو کمپیوٹر پروگرام کی طرح تصور کرناکہ جسے وقتاً فوقتاً اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے ایک ایسی سوچ ہے جو دین کی بنیادی روح سے ناواقفیت کا اظہار کرتی ہے۔ روایت کے اصول صدیوں سے امت کو متحد رکھے ہوئے ہیں۔ روایت ہمیں وہ بنیادیں فراہم کرتی ہے جس پر ہم اپنی شناخت تعمیر کرتے ہیں اور اجتہاد ہمیں ان بنیادوں پر نئے تقاضوں کے مطابق عمارت کھڑی کرنے کا موقع دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت اور اجتہاد میں توازن برقرار رکھنا ایک ناگزیر عمل ہے۔ اگر روایت کو ترک کر دیا جائے یا اجتہاد کو مکمل طور پر روک دیا جائے تو دونوں صورتوں میں امت کو نقصان ہوگا۔
روایت کے اصول جامد نہیں بلکہ استحکام کی علامت ہیں اور یہ استحکام ہی ہے جو دین کو ہر دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ روایت کے اصول ہر عہد کے مسائل کا حل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسئلہ ان اصولوں کو گہرائی سے سمجھنے کا ہے جو محض سطحی علم یا جذبات سے ممکن نہیں۔ روایت کے اصول صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہیں۔ یہ اصول نہ صرف ماضی سے سبق لیتے ہیں بلکہ مستقبل کی رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔
دین کی بقا اور ترقی اس بات میں ہے کہ ہم روایت کے اصولوں کو سمجھیں اور ان اصولوں کو اپنے زمانے کے مطابق حکمت کے ساتھ اپلائی کریں۔ جدیدیت کے نام پر ہر نئی سوچ کو دین میں جگہ دینا نہ دانشمندی ہے اور نہ ہی دین کا تقاضا۔ دین ہمیں توازن، حکمت اور استقامت سکھاتا ہے۔ دین کا مقصد انسان کو روشنی دکھانا اور اسے اندھیروں سے نکالنا ہے اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ہم اس کی اصل روح کو محفوظ رکھتے ہوئے نئے تقاضوں کے لیے راستے تلاش کریں۔
تجدد پسند ہمیشہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ روایت اجتہاد سے کام نہیں لیتی اور اہل روایت اجتہاد کا دروازہ بند کردیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے اور کھلا رہنا چاہیے لیکن اس کے لیے حکمت اور گہرائی ضروری ہے۔ اگر یہ دروازہ ہر کسی کے لیے بغیر کسی اہلیت کے کھول دیا جائے تو نہ صرف دین کی بنیادیں کمزور ہوں گی بلکہ بے مقصد خیالات کا غلبہ بھی ہو جائے گا۔
اجتہاد کا مقصد صرف نئے مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں بلکہ امت کی یکجہتی اور رہنمائی کوبھی برقرار رکھنا ہے۔ اگر اجتہاد کے دروازے کو بغیر کسی معیار کے کھول دیا جائے تو یہ امت کے اندر مزید اختلافات اور انتشار کا سبب بنتا ہے۔ اجتہاد کا حق صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جنہوں نے دین کی تعلیمات کو گہرائی سے سمجھا ہو، جن کے دل تقویٰ سے معمور ہوں اور جو حکمت کے ساتھ زمانے کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر اجتہاد محض ایک جذباتی یا فکری تجربہ بن جائے تو دین اپنی اصل روح کھو بیٹھے گا۔
اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے لیکن اس دروازے سے داخل ہونے کے لیے علم، حکمت اور تقویٰ لازمی ہیں۔ دین کی اصل خوبصورتی اس کے اصولوں کی ابدیت اور لچک میں ہے لیکن یہ لچک اصولوں کو چھوڑنے یا ان کی روح کو مسخ کرنے کا نام نہیں۔ اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے کا نعرہ بظاہر بڑا خوبصورت ہے لیکن اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔ اجتہاد صرف ایک علمی مشق نہیں بلکہ یہ ایک گہری ذمہ داری ہے جسے سرانجام دینے کے لیے دین، تاریخ اور معاشرتی شعور کا بھرپور علم ہونا لازم ہے۔ اگر اس ذمہ داری کو غیر مستند ہاتھوں میں دیا جائے تو نتائج سطحی اور نقصان دہ ہو تے ہیں۔
اجتہاد ایک مقدس ذمہ داری ہے جو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر اجتہادکا دروازہ ہر کس و ناکس کے لیے کھول دیا جائے تو دین کی تشریح محض جذباتی اور غیر مستند بنیادوں پر ہوگی جو دین کی اصل روح کو گہنا دے گی۔ اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے لیکن اس کا معیار اتنا بلند ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے علم، تقویٰ اور حکمت کی سیڑھی چڑھنا پڑتی ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔
دورِ حاضر میں دلیل اور منطق کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دلیل کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر نظریہ یا اصول صرف اس لیے مسترد کر دیا جائے کہ وہ پرانا ہے۔ پرانا ہونا کسی چیز کو غلط نہیں بناتابلکہ یہ اس کی آزمودہ حکمت کی دلیل ہے۔ متجددین کی دلیل کا معیار بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ مغربی فکر ونظریات کو اسلامی اصولوں پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ دین کی اصل طاقت اس کی عالمی حیثیت اور مستقل مزاجی میں ہے نہ کہ ہر بدلتے دور کے ساتھ اس میں غیر ضروری تبدیلیاں کرتے رہنے میں۔