تو پھر سپریم کورٹ بھی نوٹس نہ لے!کوئی روک ٹوک نہ ہو! عوام کی کھال اترتی رہے۔ بوٹیاں نوچی جاتی رہیں!یہ خود تو اپنے اور اپنے خاندانوں کے جملہ اخراجات قومی خزانے سے پورا کرتے ہیں! حفاظتی پہریداروں سے لے کر اپنے اور اپنے ذلّہ خواروں کے راتب تک، سب عوام پر ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ سابق سفیر کرامت غوری لکھتے ہیں کہ الجزائر میں خصوصی باورچی منگوائے گئے۔ انہوں نے بھنڈی کا مطالبہ کیا کہ زرداری صاحب کا دسترخوان اس کے بغیر ادھورا رہے گا۔
بھنڈی فرانس سے منگوائی گئی! قائد اعظم ثانی نے نواسی کا نکاح حرم شریف میں پڑھوایا تو قومی ایئر لائن کی طے شدہ پروازوں کو کینسل یا موخر کرا کر جہازوں کا رُخ سعودی عرب کی طرف موڑ دیا۔ ان میں سے ایک ایک قومی خزانے کو کروڑوں اربوں روپوں کا پڑتا ہے! ان کی بیٹیوں اور بیٹوں کے پروٹوکول پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں! کس قانون کے تحت بلاول کے پروٹوکول پر سندھ حکومت اور حمزہ شہباز اور مریم صفدر کے پروٹوکول پر پنجاب حکومت کے وسائل صرف ہو رہے ہیں؟ جب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ان کی کمین گاہوں پر ہاتھ ڈالا ہے، ان کے پیٹوں میں قولنج کا درد اُٹھ رہا ہے۔
اسہال ہیں کہ رُک نہیں رہے! سو روپے کے کارڈ میں چالیس روپے کہاں جاتے ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ مگر مائی لارڈ! یہ غارت گری صرف سو روپے کے فون کارڈ پر تو نہیں ہو رہی! عام پاکستانی کے گردے اور انتڑیاں نکال کر ان حکمرانوں نے اپنے محلات کی دیواروں پر لٹکا دی ہیں کہ خوف ہر طرف چھایا رہے! میاں نواز شریف کی حکومت کے زمانے میں موٹر وے پر، اسلام آباد سے لاہور جانے کا ٹیکس چھ سو روپے سے زائد ہو چکا ہے! جی ٹی روڈ پر جائیں تو ہر چند کلو میٹر پر تیس روپے کا جگا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ کیا اب چیف جسٹس ہی پوچھیں گے کہ یہ چھ سو روپے اور یہ تیس روپے کہاں جاتے ہیں؟ ان کی حکومت کا آغاز ہوا تو ساٹھ برس سے اوپر کے بوڑھوں کو نیشنل سیونگ (قومی بچت مراکز) میں ایک لاکھ جمع کرانے پر چودہ سو روپے ملتے تھے۔ قائد اعظم ثانی کے عظیم سمدھی اسحاق ڈار نے یہ رقم آٹھ سو روپے کر دی! اپنے اثاثے لاکھوں سے کروڑوں کر لیے۔
آج عظیم سوشلسٹ رہنما رضا ربانی غم سے نڈھال ہیں کہ سپریم کورٹ نے اسحاق ڈار کی سینٹ کی ممبر شپ معطل کیوں کر دی ہے۔ فرماتے ہیں آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں! قائد اعظم کے اے ڈی سی کا یہ فرزند جب بلاول زرداری کے سامنے مودبانہ کھڑا ہوتا ہے تواس وقت آئین متاثر ہوتا ہے نہ جمہوریت! یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں کے دوران کرپشن کا گراف آسمان کو چھو گیا مگر رضا ربانی صاحب کے ماتھے پر ایک سلوٹ نہ پڑی! پارٹی کے اندر موروثی بادشاہت پر کبھی کوئی پریشانی انہیں لاحق نہیں ہوتی! تعلیم کا درجہ زمین کی گہرائی سے زیادہ پست ہو گیا۔
یونیورسٹیاں اکھاڑے بن گئیں مگر رضا ربانی صاحب سٹوڈنٹس یونین کو بے لگام دیکھنا چاہتے ہیں! دال آمریت اور خاندانی وفاداری کی اور تڑکا سوشلزم اور جمہوریت کا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! اس ملک میں ہر سودا بک جاتا ہے! قبلہ! بیچتے رہیے! یوم حساب تو آپ کے کیلنڈر میں وجود ہی نہیں رکھتا!کیا زندگی ہے عام آدمی کی! صبح سے شام تک دھکے کھاتا ہے، شام کو گھر پہنچتا ہے تواسے یوں لگتا ہے کسی بیگار کیمپ سے واپس آیا ہے! صرف ٹریفک کا عامل دیکھ لیجیے! حکمرانوں نے پولیس کو اپنی خاندانی کنیز بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس پولیس کا فرض تو یہ تھا کہ ٹریفک کو تہذیب سے روشناس کراتی۔
عوام کی تربیت کرتی مگر جہاں بھی افراتفری ہو، ٹریفک جام ہو، وہاں پولیس نظر ہی نہیں آتی! عالم یہ ہے کہ دارالحکومت کی شاہراہوں پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے لوگ موبائل فون سُن اور کر رہے ہیں کوئی روک ٹوک کوئی پکڑ دھکڑ نہیں! ستر سال میں ہماری ٹریفک پولیس عوام کو یہ دو بنیادی اصول نہ سکھا سکی کہ اول بائیں طرف سے اوورٹیک کرنا غلط ہے اور دوم چھوٹی سڑک سے بڑی شاہراہ پر آئیں تو رکنا لازم ہے! ہزاروں افراد ٹرالیوں ٹریکٹروں اور ڈمپروں کے نیچے آ کر کچلے جا رہے ہیں مگر پولیس کو فکر ہے نہ حکمرانوں کو! ڈمپر کا وحشی اَن پڑھ انسان نما جانور ڈرائیور آپ کی کار کو، موٹر سائیکل کو، پیدل راہگیر کو ایک آن میں مار کر رکھ دیتا ہے۔
انصاف کے ترازو کا پلڑا اتنی حرکت بھی نہیں کرتا جتنی پلک جھپکنے میں آنکھ کرتی ہے!بجلی اور گیس کے بل دیکھ لیجیے۔ ان بلوں کے آڈٹ کا کوئی نظام کوئی سسٹم نہیں! آپ انہیں چیلنج نہیں کر سکتے! پہلے رقم جمع کرائیے اس کے بعد دفتروں کے پھیرے لگانے شروع کیجیے۔ اہلکار آپ کو بھنبھوڑ ڈالیں گے مگر آپ کے کسی سوال کا ان کے پاس جواب نہیں!سرکاری شفاخانے مقتل بن چکے ہیں۔ اندر داخل ہوں تو وحشت استقبال کرتی ہے! بیمار کیا شفایاب ہوں، جو تندرست لواحقین ساتھ ہوتے ہیں، مرض پکڑ کر واپس آتے ہیں! غریب سے غریب شہری کی مجبوری یہ ہے کہ پرائیویٹ ہسپتال میں جائے! خون اور پیشاب کے ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹری میں جا کر کرائے۔
یہ پرائیویٹ کلینک اور لیبارٹریاں مقتلوں سے برتر ہیں۔ کاروبار ہے اور ایسا کاروبار کہ خوجے، چنیوٹی، میمن اور شیخ کانوں کو ہاتھ لگائیں! فزیشن سرجن کو مریض بھیجتا ہے تو حصہ مانگتا ہے۔ سرجن مریض کو لیبارٹری میں بھیجتا ہے تو حصہ مانگتا ہے! اس درد ناک اور عبرت ناک واقعہ کو سال ہونے کو ہے۔ ایک مشہور و معروف اینکر تشریف لائے۔ دارالحکومت کے ڈاکٹروں نے انہیں بتایا تھا کہ دل کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سٹنٹ پڑیں گے۔ سٹنٹ کے لیے "تیار" کرنے کی غرض سے انہیں ادویات کھلائی جا رہی تھیں۔ ان کی تفصیلی رپورٹیں لاہور ایک عزیز کو بھیجیں جو ماہر امراض قلب ہیں۔ وہی رپورٹیں آسٹریلیا میں بھیجیں۔
دونوں نے ایک ہی بات بتائی کہ سٹنٹ ڈالنے کا کوئی سوال نہیں! معمولی دوا سے ٹھیک ہو جائیں گے! ہر طرف خونخوار درندے آدم بو آدم بو پکارتے پھر رہے ہیں! ایک دو نہیں! غول کے غول! چیف جسٹس جہاں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں، کیچڑ نکلتا ہے اور فائدہ اٹھانے والے Beneficiariesپشتینی طرف داروں اور خاندانی ٹوڈیوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ عدالتی ایکٹوازم (فعالیت) سے جمہوریت کا خون نہ ہو جائے! انسان گرتا ہے تو اشرف المخلوقات سے اسفل السافلین کے درجے تک گر جاتا ہے۔ نیم خواندہ وزیر اعظم چار سال تک کوئی فائل خود نہ پڑھے۔ سال سال بھر اسمبلی میں اور سینیٹ میں نہ جائے، کابینہ کا اجلاس مہینوں نہ بلائے پارلیمنٹ کو فیصلوں کا علم پریس کے ذریعے ہو، بیٹی حکمران اور بھتیجا بادشاہ بن جائے مگر عدالتی فعالیت پر دامن دریدہ کرنے والے دانشوروں کے ماتھے پر بل نہ آئے! چار سال میں وزیر اعظم نے اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی(ای سی سی) کے ایک اجلاس کی صدارت نہ کی۔ سمدھی کو عملی طور پر نائب وزیر اعظم بنا دیا۔ ڈار صاحب سینکڑوں کمیٹیوں کے سربراہ بن گئے۔ پرائیویٹ کلینک چلانے والوں کو بنکوں کے اوپر بٹھا دیا گیا۔ ایک ایک ادارے میں چُن چن کر اپنے وفادار نصب کیے گئے۔
ایک مخصوص برادری کو مسلسل نوازا گیا۔ ازکار رفتہ پیران تسمہ پا کو وزیر اعظم آفس میں بٹھایا گیا کہ بیورو کریسی کو شاہی خاندان کا غلام بنا کر رکھیں! صاف پانی کی ایک بوند نہ ملی اور کروڑوں روپے مراعات پر خرچ کر دیے گئے۔ پچاس سے زیادہ کمپنیاں بنا کر متوازی حکومت قائم کر دی گئی۔ تنخواہیں لاکھوں میں! یہ سب کچھ ہوتا رہا دانش وروں کی دانش آنکھیں بند کر کے سوئی رہی! جیسے ہی عدالت عظمیٰ نے چوروں ڈاکوئوں اٹھائی گیروں نقب زنوں کا تعاقب کرنا شروع کیا، جمہوریت خطرے میں پڑ گئی! ووٹر کی عزت غیر محفوظ ہو گئی۔
ووٹر کی عزت جو قیمے والے نان میں لپیٹ کر اس کے حوالے کی جاتی ہے، عدالتی مداخلت کے بعد تار تار نظر آنے لگی!مائی لارڈ! مظلوم شہری آپ کی طرف دیکھ رہا ہے! ڈاکہ صرف موبائل فون کے کارڈ کے ذریعے نہیں ڈالا جا رہا! موٹر وے ٹول پلازا سے لے کر جی ٹی روڈ ٹول پلازوں تک۔ بجلی کے بلوں سے لے کر نیشنل سیونگ کے سکڑتے ہوئے منافع تک۔ ہر جگہ ڈاکہ زنی کی واردات ہے! عوام کے لیے سانس لینا دوبھر ہو رہا ہے! قریب ہے کہ وضو ٹوٹنے پر ٹیکس لگا دیا جائے!