Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hafiz Jalandhari Ki Aik Nayab Nazam

Hafiz Jalandhari Ki Aik Nayab Nazam

26اگست کے کالم میں بچوں کے لیے لکھی گئی شاعری کا تذکرہ ہوا۔ لاتعداد ای میلز موصول ہوئیں۔ ایک تو یہ پوچھا گیا کہ صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کے عنوان سے جو کتاب لکھی وہ کہاں سے ملے گی۔ دوسری فرمائش جو کثیر تعداد میں اندرون ملک اور بیرون ملک سے کی گئی یہ تھی کہ حفیظ جالندھری کی شہرہ آفاق نظم "تُڑم تم تُڑم" انہیں بھیجی جائے۔"ٹوٹ بٹوٹ" کافی عرصہ آئوٹ آف پرنٹ رہی۔ خوش قسمتی سے اب مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ کسی بھی بڑے کتاب فروش کے ہاں سے مل سکتی ہے۔ رہی حفیظ جالندھری کی نظم تو چونکہ ہر ای میل کے جواب میں یہ نظم بھیجنا ممکن نہیں، اس لیے یہاں نقل کی جا رہی ہے۔ یہ نظم جس کتاب سے نقل کی جا رہی ہے اس کا نام "حفیظ کے گیت اور نظمیں "ہے۔ سال اشاعت کہیں نظر نہیں آ رہا۔ مگر لکھا ہے"ہندوستانی بچوں کے لیے۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب تقسیم سے پہلے چھپی تھی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ کتاب کے چاروں حصے "مجلس اردو ماڈل ٹائون لاہور" سے منگوائے جا سکتے ہیں۔ غالباً ماڈل ٹائون میں حفیظ صاحب کی رہائش گاہ تھی۔ صرف چوتھے حصے پر سال اشاعت 65ئ، بار دوم" درج ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ "ابوالاثر حفیظ جالندھری نے دفتر شاہنامہ اسلام ماڈل ٹائون لاہور سے شائع کیا"۔ روزنامہ 92کے لیے یہ اعزاز ہے کہ یہ نایاب نظم افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کی جا رہی ہے۔ تُڑم تم تُڑم کی کہانیسنا ہے کہ اونٹوں کا اک قافلہبیابان میں تھا چلا جا رہاتھی اک اونٹ کی پیٹھ زخمی کہیں اسے اس کے مالک نے چھوڑا وہیں وہ بوجھا اٹھا نے کے قابل نہ تھااکیلا بیابان میں رہ گیابڑھی جب کہ گرمی تُڑم تم تُڑملگی پیاس اس کو دُڑم دُم دڑم٭٭٭٭٭پھرا دھوپ میں وہ ادھر اور ادھرکہیں اس کو پانی نہ آیا نظرکئی دن نہ پانی جب اس کو ملابُرا حال اس اونٹ کا ہو گیابہت ہی برا حال تھا اونٹ کااچانک اسے ایک گیدڑ ملاکہا اونٹ نے پیارے گیدڑ میاں کوئی ندّی ودّی بتائو یہاں کہا اس سے گیدڑ نے سُن اے چچااگر تجھ کو پانی کا دوں میں پتاتو کھائوں گا کچھ گوشت میں نوچ کرجہاں پر سے زخمی ہے تیری کمرہوا اونٹ راضی دڑم دم دڑمچلے پھر وہ مل کر تُڑم تم تُڑم٭٭٭٭٭وہ پہنچے وہاں ایک ندی کے پاسبجھائی جہاں اونٹ نے اپنی پیاسمگر اس قدر اس نے پانی پیاکہ اب چلنا پھرنا بھی دوبھر ہواکہا اب تو گیدڑ نے اے اونٹ لامجھے گوشت اپنی زباں کا کھلاکہا اونٹ نے یہ تو کہتا ہے کیاکمر کا تھا میں نے تو وعدہ کیاتو گیدڑ یہ بولا نہیں اے چچازباں ہی کا وعدہ تھا تونے کیاکہا اونٹ نے جھوٹ کہتا ہے تو٭٭٭٭٭فریبی ہے تو سخت جھوٹا ہے توتو گیدڑ پکارا دڑم دم دڑمکہا اونٹ نے بھی تُڑم تم تُڑمکہا اونٹ نے دیکھ بک بک نہ کرنہیں مجھ سے ڈرتا، خدا سے تو ڈرنہ گیدڑ نے لیکن سنی اونٹ کیزباں ہی زباں کی اسے رٹ رہیکہا اونٹ نے تنگ آ کر کہ خیرکرے فیصلہ اب کوئی آ کے غیرزباں اور شے پیٹھ ہے اور شےترے پاس کوئی گواہی بھی ہےپکارا یہ گیدڑ ٹھہر جا ذراگواہی بھی لاتا ہوں میں اے چچایہ کہہ کر وہ بھاگا دُڑم دم دڑماچھل کود کرتا تُڑم تم تُڑم٭٭٭٭٭وہیں بھٹ میں رہتا تھا اک بھیڑیاکہا اس سے گیدڑ نے سب ماجراکہ اونٹ ایک پھانسا ہے میں نے میاں چلو کاٹ لیں چل کے اس کی زباں یہ سن کر بہت خوش ہوا بھیڑیاچلا ساتھ گیدڑ کے ہنستا ہوابہت جلد پہنچے وہ ندی کے پاسجہاں اونٹ بیٹھا ہوا تھا اداسکہا بھیڑیے نے دڑم دم دڑممیں سچ بولتا ہوں تُڑم تم تُڑممیں سنتا تھا جھاڑی کے پیچھے وہاں زباں کے کھلانے کا وعدہ تھا ہاں جو وعدہ کیا تھا وہ سچ کر دکھازباں اپنی گیدڑ کو جلدی کھلامکرتا ہے کیوں اب دڑم دم دڑممکرنا ہے تیرا تُڑم تم تُڑم٭٭٭٭٭کہا اونٹ نے پیٹھ کا گوشت لوتو دونوں پکارے زباں ہی کا دوکہا اونٹ نے میں تو مر جائوں گاتو دونوں یہ بولے ہمیں اس سے کیاغرض اونٹ بولا دُڑم دُم دُڑمبہت تنگ آ کر تُڑم تم تُڑمکہ لو بھائی گیدڑ زبان کاٹ لوخدا تم سے سمجھے گا اس بات کووہ بیٹھا جوں ہی اپنا منہ کھول کرتو گیدڑ کو لگنے لگا دل میں ڈرکہا بھیڑیئے سے دُڑم دم دُڑمکہ اے میرے پیارے تُڑم تم تُڑم٭٭٭٭٭زباں اونٹ کی تو ہے موٹی بہت مری تھوتھنی اس سے چھوٹی بہتذرا آکے منہ سے زباں تھامنامجھے سہل ہو جائے گا کاٹناکہا بھیڑئیے نے دڑم دم دڑمبہت خوب اچھا۔ تُڑم تم تُڑم٭٭٭نہ تھی بھیڑیے کو مگر کچھ خبردیا ڈال جھٹ اونٹ کے منہ میں سرکیا اونٹ نے بند جھٹ اپنا منہدیا زور دانتوں کا بھی۔ کہہ کے، اُونہہیہ چوٹ اس طرح بھیڑیئے پر پڑیکہ سر کٹ گیا۔ پھٹ گئی کھوپڑیتو گیدڑ بھی بھاگا یہ کہتا ہواملی جھوٹ کی بھیڑیے کو سزاکہا اونٹ نے تو بھی آ گوشت کھاتو گیدڑ پکارا"نہیں اے چچا"دڑم دُم دڑم دُم۔ دڑم دم دڑمتُڑم تم تُڑم تم۔ تُڑم تم تُڑم٭٭٭حفیظ صاحب نے کتاب کا پہلا حصہ شمیم اور طاہرہ کے نام کیا ہے۔ دوسرا فہمیدہ کے نام اور چوتھا سعیدہ کوثر کے نام۔ (تیسرا حصہ اس مجموعے میں نہیں ) غالباً یہ ان کی اپنی بیٹیوں کے نام ہیں۔ حفیظ صاحب کی معرکہ آرا تصنیف "شاہنامۂ اسلام" بھی مارکیٹ میں ناپید ہے۔ نہیں معلوم ان کے ورثا کون ہیں اور کہاں ہیں! کوئی پبلشر ہمت کرے اور قانونی اجازت ان کے ورثا سے لے کر یہ ساری کتابیں شائع کرے۔ اسماعیل میرٹھی، قیوم نظر اور ابصار عبدالعلی کی نظمیں بھی نایاب ہیں۔ اگر بچپن میں آج کے طلبہ کو یہ شاعری نہ پڑھائی گئی تو بڑے ہو کر وہ میر، غالب، اقبال، فیض اور مجید امجد سے بھی نابلد ہی رہیں گے۔ خسرو اور بیدل کا تو ذکر ہی کیا۔ اقبال کا فارسی کلام بھی اب لگتا ہے ایران تاجکستان اور افغانستان ہی میں پڑھا جاتا ہے۔ یہاں تو اردو کلام کے لالے پڑے ہوئے ہیں! بچوں کے ادب کی طرف توجہ بالکل نہیں دی جا رہی! سرکاری اشاعتی ادارے پوری ڈھٹائی سے دوست نوازی اور خوشامد میں مصروف ہیں! ؎اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اورساقی نے بِنا کی روش لطف و ستم اور

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.