مجھے بچے بہت پیارے لگتے ہیں۔۔ کسی کے بھی ہوں اور میں بچوں کو لگتا ہوں۔
اب اس سائنس کی مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ بچے میری طرف کیوں اٹریکٹ ہوتے ہیں۔ میں جب سے باپ بنا بہترین baby sitting کرتا رہا ہوں اور اب بھی کبھی کبھار کرتا ہوں۔
جہاں ہم پہلے رہتے تھے وہاں وائف کی دوستیں اکثر اپنے بچے میرے پاس چھوڑ جاتی تھیں کہ اپنے بچوں ساتھ ہمارے بچوں کا بھی خیال رکھے گا۔ ایک دفعہ تو ایک خاتون نے میری وائف کو بتایا رئوف بھائی نے تو میرے بچے بگاڑ دیے ہیں۔ میرے بچے کہتے ہیں کہ آپ نے کیا فضول قسم کے ہمارے بابا سے شادی کی۔ آپ کو احمد (میرا بیٹا) کے بابا سے کرنی چاہئے تھی۔ ہمارا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
خاندان میں بھی میں بچوں کا فیورٹ ہوں۔ وائف کے بھانجے/بھانجی/بھتیجے/بھتیجی یا میرے بھائی خضر کے تینوں بچے ہوں۔۔ سب سے میری بڑی دوستی ہے۔
میڈیم عنایہ تو خیر میری باس ہے۔
میرا ماننا ہے بچوں کو برابری پر ٹریٹ کرو۔ ان کی باتوں کو اہمیت دو، عزت سے پیش آئو۔ انہیں کبھی کبھار شاپنگ کرائو، ان کی مذاق والی باتوں پر کھل کر ہنسو، ان کی تعلیمی حوصلہ افزائی کرو، انہیں احساس دلائو کہ وہ ہمارے لیے کتنے اہم ہیں تو پھر دیکھیں وہ آپ سے پیار کرتے ہیں۔
ایک جاننے والی فیملی تھی۔ ان کے خاندان میں ایک نانا بچپن سے اپنی ایک نواسی سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ امریکہ پڑھنے چلی گئی اور پھر اپنا اچھا جاب شروع کیا۔ پاکستان آئی تو پتہ چلا وہ نانا تو بوڑھے ہوچکے تھے۔ بیٹوں اور بہوئوں نے وہ توجہ نہ دی۔ اس لڑکی نے خود نانا کو ہسپتال داخل کرایا۔ تین ماہ دن رات ان کے ساتھ رہی۔ سارا خرچہ خود اٹھایا۔ وجہ وہی تھی کہ نانا مجھ سے بچپن میں بہت پیار کرتے تھے۔
خیر میرے اس لاڈلے کا نام محمد احمد ہے۔ یہ ہمارے منے بھائی شکیل انجم (ملتان) کا بیٹا ہے۔ میں ملتان جائوں تو ان کے گھر ٹھہرتا ہوں۔ یہ صبح سویرے میرے کمرے پر دستک دیتا۔ باپ منع کرتا رہ جاتا کہ انکل کو سونے دو۔ یہ کہتا نہیں میں نے انکل سے گپیں مارنی ہیں یہ پھر اسلام آباد چلے جائیں گے۔ وہ چپکے سے مجھے اٹھا کر کہتا انکل آپ تو جاگ رہے ہیں۔ آپ کے لیے کافی یا چائے لائوں۔ میں آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھتا تو اپنی پیاری بہن نوال کو بلا لاتا کہ انکل اٹھ گئے ہیں اور پھر اگلے دو گھنٹے میں نوال اور احمد سے سویا جاگا باتیں کرتا۔ شکیل نے مجھے بتایا تھا کہ ہماری چند ضروری باتیں نہیں مانتا۔ جو باتیں باپ کی نہیں مانتا تھا میں نے زرا آنکھیں نکال کر دکھائی تو ہنس کر کہا انکل اب شکایت نہیں ہوگی اور شکیل نے بتایا پھر وہ شکایت نہیں ہوئی۔
اسے میرے بچوں بارے بہت تجسس رہتا ہے وہ کیسے ہیں۔ وہ کیا کرتے ہیں۔ مہد سے تو ویڈیو پر بات کرائی تھی۔ ابھی تک اس کی ملاقات ان دونوں سے نہیں ہوئی۔ یہ اسلام آباد ہمارے گھر آیا تو وہ دونوں اسلام آباد سے باہر تھے۔
اب یہ ماشاء اللہ بڑا ہورہا ہے۔ میں ملتان جائوں تو اس کی خوشی آنکھوں سےجھلک رہی ہوتی ہے۔ یہ مجھ سے ایک ہزار سوالات کرے گا۔
اب کل ملتان میں تھا۔ اسلام آباد روانہ ہونے سے پہلے اسے کہا احمد میں نے آپ کے ساتھ تصویر لینی ہے۔ یہ بھاگ گیا کہ نہیں نہیں میں تیار نہیں ہوں۔ ابھی تصویر نہیں لینی۔ لوگ دیکھ کر کیا کہیں گے؟ یہ پورے دو گھنٹے تصویر لینے سے بھاگتا رہا۔ آخر بڑی مشکل سے تیار ہوا۔