Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. PTA Kahan Hai

PTA Kahan Hai

اب اس روایتی اور مذہبی معاشرے میں اسی چیز کی کسر باقی تھی۔ سو پوری ہو گئی۔ جنسی ادویات کے اشتہار موبائل ٹیلی فونوں کے ذریعے ایس ایم ایس پر گھر گھر بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک سرکاری ادارہ پی ٹی اے(پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی) صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم ہے۔ بھاری مشاہروں پر اس میں بڑے بڑے افسر، بڑے بڑے ٹیکنو کریٹ تعینات ہیں۔ بھاری بجٹ ہے اور حالت یہ ہے کہ گھروں میں جنسی ادویات کے ناقابل برداشت، مکروہ اشتہارات بھیجے جا رہے ہیں۔ ادارہ کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ پہلی صدائے نفرین تو اُن زرپرست جانوروں کے خلاف بلند کرنی چاہیے جن کا کوئی اخلاقی آگا پیچھا نہیں! جو ہر حال میں پیسہ بٹورنا چاہتے ہیں۔ انہیں جانور کہنا جانوروں کی توہین ہے۔ جانوروں کے پھر اخلاقی ضابطے ہوتے ہیں۔ سوائے اس ایک جانور کے جس کا نام لینا اس معاشرے کی روایت کے خلاف ہے۔ کیا فرق ہے ان میں اور جنسی ادویات فروخت کرنے والوں میں؟ سب کو معلوم ہے کہ بہت سے گھروں میں اب لینڈ لائن ٹیلی فون نہیں لگوایا جاتا۔ ایک موبائل فون گھر کے عمومی استعمال کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ اسے گھر کے بچے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جوان لڑکیاں بھی اور خواتین بھی۔ یہ جنسی اشتہار ان کی نگاہوں سے بھی گزرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ رسی کا سرا دستیاب ہو تو نوجوان لڑکے نوخیز لڑکیاں اس سرے سے پوری رسی تلاش کر لیتے ہیں۔ اول تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مارکیٹنگ کرنے کے لئے سینکڑوں ہزاروں صارفین کو نشانہ بنائے۔ اشتہار مکان بیچنے کا ہے یا پلاٹ خریدنے کا، ونڈو ایئر کنڈیشنر کے لئے ہے یا کسی سیل کا، آپ کو کیوں پریشان کرے؟ آپ سو رہے ہیں، مطالعہ کر رہے ہیں۔ نماز ادا کر رہے ہیں، تلاوت کر رہے ہیں۔ کسی ضروری کام میں مصروف ہیں۔ کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہیں، گھنٹی بجتی ہے، آپ تجسس میں فون کی سکرین دیکھتے ہیں۔ کوئی لالچی شخص کوئی شے بیچنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ خریدیں۔ موبائل فون کے ذریعے سینکڑوں ہزاروں افراد کو اشتہار بھیجنے والا "خدا ترس" شخص چُھپا بیٹھا ہے۔ وہ ایک اشتہاری "کمپنی" چلا رہا ہے۔ تاجر اپنا اشتہار اور اپنے فون نمبر اسے دیتے ہیں۔ وہ ایک کلک کے ذریعے یہ اشتہار گھر گھر، کمرہ کمرہ، بستر بستر، پہنچاتا ہے۔ آپ اسے ٹیلی فون کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھائی میرا نام اپنی برگزیدہ فہرست سے خارج کر دو۔ مگر اس تک رسائی ناممکن ہے۔ وہ نمبر اٹھاتا ہی نہیں! آپ اس تاجر کو فون کرتے ہیں جو فروخت کنندہ ہے۔ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ "یہ تو اشتہاری کمپنی کا کام ہے۔ اسے کہیے کہ آپ کا نمبر اپنی فہرست سے نکال دے۔ رہا میں تو حکم کیجیے کون سی جنسی دوا درکار ہے؟ پی ٹی اے کے متعلقہ افسر سے بات کی تو ان کا خوف زدہ جواب تھا کہ پریس انچارج سے بات کریں۔ وضاحت کی کہ پریس انچارج آپ ہی سے پوچھے گا۔ بہرطور انہوں نے ای میل ایڈریس دیا جس پر بدمعاشی کی ساری تفصیل بھیج دی گئی۔ اب دیکھیے کیا ایکشن لیا جاتا ہے۔ مگر اصل سوال اور ہے! کیا پی ٹی اے نے کبھی ٹیلی ویژن یا پرنٹ میڈیا کے ذریعے صارفین کو آگاہ کیا ہے کہ اشتہار بازی فلاں قانون کی خلاف ورزی ہے اور فلاں نمبر پر رابطہ کیا جائے۔؟ یہ کالم نگار سال کے کئی ماہ بیرون ملک گزارتا ہے۔ وہیں کی سِم استعمال ہوتی ہے۔ وہیں کا نیٹ ورک! کبھی کوئی اشتہار نہیں موصول ہوتا۔ ہاں، ٹیلی فون کمپنی یہ اطلاع ضرور دیتی ہے کہ کون سے نئے پیکیج صارفین کے لئے ارزاں ثابت ہوں گے۔ کیا یہ ہماری قومی سرشت کا حصہ ہے کہ ہم ہر ایجاد کا، ہر سہولت کا بھر پور طریقے سے غلط استعمال کریں۔ لائوڈسپیکر سے شروع کیجیے۔ پورا محلہ بیزار ہوتا ہے۔ صبح چار بجے سے رات نو دس بجے تک وقفے وقفے سے مسلسل استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نماز باجماعت بھی لائوڈ سپیکر پر ادا کی جاتی ہے۔ کئی مسلمان ملکوں میں لائوڈ سپیکر کی آواز مسجد کی حدود سے باہر نہیں جاتی۔ یہاں مریض ہے یا طالب علم، بوڑھا ہے یا بچہ، اذیت سے دوچار ہے!ٹیلی ویژن لے لیجیے۔ تفریح کے نام پر جو ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان میں شادیوں طلاقوں سازشوں معاشقوں اور ساس بہو کے جھگڑوں کے علاوہ کوئی پلاٹ ہی نہیں! تاریخ ہے نہ جغرافیہ، بین الاقوامی تعلقات پر کوئی ڈھنگ کا مضمون نہیں! صبح کے پروگرام فیشن اور گھٹیا ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیم تعلیم یافتہ نوجوان اچھلتے کودتے پستے ذہنی سطح بروئے کار لا کر عوام کے ذوق کو بھی پاتال تک لا رہے ہیں اور اب تو ان ڈراموں نے حد کر دی ہے۔ مقدس رشتوں کے ساتھ معاشقے! الامان و الحفیظ!!پوری ترقی یافتہ دنیا میں ای ریڈر پر خلقِ خدا کتابوں کا مطالعہ کر رہی ہے۔ پاکستان میں ای ریڈر مقبول ہی نہیں ہو سکا۔ اس لئے کہ کتابوں سے ازلی ابدی دشمنی ہے۔ فیس بُک کو دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔ احرام باندھا تو اس کی تشہیر! عمرہ ادا کیا تو اس کی تصویر! مریض ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ یہاں اس کی تصویر فیس بک پر لگانے کا شوق تیز ہو رہا ہے۔ وٹس ایپ اور مسینجر کا غلط استعمال تو انتہا کو چھو رہا ہے۔ کوئی دعائیں سکھا رہا ہے۔ کوئی نسخے بتا رہا ہے۔ کوئی جمعہ مبارک بھیجنا نہیں بھولتا۔ بھائی لوگو! یہ جمعہ مبارک آج سے چند برس پہلے تو سننے میں نہیں آتا تھا۔ یہ کہاں سے آ گیا؟ جمعہ کے دن اپنی عبادت اپنی عاقبت کی فکر کرو! نہائو، دھوئو، اجلا لباس زیب تن کرو۔ تلاوت کرو۔ وقت پر مسجد پہنچو، عبادت کرو! گناہوں کی معافی مانگو۔ دوسروں کو مبارکیں بھیجنے کا وقت تمہیں کیسے مل گیا؟ انٹرنیٹ کا مجموعی طور پر غلط استعمال کتنا ہے؟ اس کا اندازہ اسی حقیقت سے لگا لیجیے کہ گوگل کے سروے کے مطابق فحش فلمیں فحش کلپ اور یو ٹیوب سے فحش ٹوٹے دیکھنے دکھانے میں یہ روایتی مذہبی ملک پہلے نمبر پر ہے!!کاش! کوئی ایک کل ہی سیدھی ہوتی!

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.