کورونا وائرس کے مسئلے پر وفاقی اور سندھ حکومت جہاں اختلافی موقف کا اظہار کر رہی ہے تو وہاں عوام بھی اس پر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور خود بھی مرض کی شدت پر ایک دوسرے سے متفق نظر نہیں آرہے۔ حکومتوں کے حامی بھی اپنی اپنی حکومت کو درست قرار دے رہے ہیں تو اپوزیشن کی تمام جماعتیں کورونا پر وفاقی حکومت کی پالیسی سے متفق نہیں اور حکومت پر تنقید کر رہی ہیں جب کہ سندھ حکومت پر تنقید صرف پی ٹی آئی کے رہنما کر رہے ہیں اور وفاقی حکومت کی حلیف جماعتیں نہ کھل کر وفاقی حکومت کی حمایت کر رہی ہیں نہ سندھ حکومت کی مخالفت جس کی وجہ سے وزیر اعظم کی طرف سے ٹائیگر فورس کا قیام بھی ہے جس کی حمایت صرف حکومت اور پی ٹی آئی کر رہی ہیں اور اپوزیشن ٹائیگر فورس کو پی ٹی آئی کی سیاست قرار دے رہی ہے۔
سندھ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں لاک ڈاؤن نہ صرف سب سے پہلے ہوا اور سخت بھی ہے مگر یہ سختی بھی عوام کو لاک ڈاؤن پر مکمل عملدرآمد کرانے میں مکمل ناکام ہے اور لیاری سمیت شہر کے متعدد علاقوں میں تو لگتا ہی نہیں ہے کہ وہاں لاک ڈاؤن ہے اور حکومت کی طرف سے واضح پالیسی کا نہ ہونا، پولیس کا رویہ، عوام کی غیر ذمے داری، کاروباری لوگوں کی مفاد پرستی نے عوام میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ پی پی کی سندھ حکومت کی واضح مخالف تحریک انصاف ہی نظر آ رہی ہے جو سمجھتی ہے کہ صوبائی حکومت صوبے خصوصاً کراچی میں خوف پھیلا رہی ہے۔
پی ٹی آئی اور سندھ کی دیگر جماعتیں راشن اور امداد کی تقسیم پر حکومت سے مطمئن نہیں ہیں مگر یہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی خصوصی طور پر سندھ حکومت کے اقدامات پر سیاست کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کورونا پر سندھ کے ڈاکٹروں پر سیاست کرنے کا الزام لگا دیا ہے جب کہ ڈاکٹروں کے خدشات کی تصدیق پنجاب کے بعد دیگر صوبوں کے ڈاکٹروں نے بھی کردی ہے مگر سندھ حکومت اور ڈاکٹروں کا موقف نہیں مانا جا رہا اورمسلسل تنقید کی جا رہی ہے جس کا جواب سندھ کے وزیروں کی طرف سے دیا جا رہا ہے، ہر دو جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں پارٹیاں اپنے لوگوں کو غیر ضروری بیان بازی سے نہیں روک رہیں جب کہ بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ اس مسئلے پر سیاست سے دور رہنے کی اپیل ہاتھ جوڑ کر بار بار کر رہے ہیں اور عوام بھی دیکھ رہے ہیں کہ کورونا پر سیاست کون کر رہا ہے اور زیادہ ذمے دار کون ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومتوں کے مختلف موقف اور دونوں کی بیان بازیوں پر عوام کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ میں کورونا کی صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی صوبائی حکومت ظاہر کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف کراچی میں کورونا پر سختی سے عمل کرایا جا رہا ہے اور سختی کی جا رہی ہے جب کہ اندرون سندھ برائے نام لاک ڈاؤن اور سختی ہے جب کہ اندرون سندھ کے برعکس کورونا نے کراچی کو زیادہ متاثر کیا ہے اور سندھ کی ہلاکتوں میں کراچی کی ہلاکتیں زیادہ ہیں جس کی وجہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہونا بھی ہے۔ اندرون شہر اگر لاک ڈاؤن پر عمل نہیں ہو رہا تو کراچی میں بھی ایسا ہی ہے۔
پاکستان میں اب کورونا سے ہلاکتیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں اور متاثرین بڑھ رہے ہیں مگر میں نہ مانوں کی پالیسی والے حقائق ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اور تو اور لوگ تو امریکا میں ہونے والی ہزارہا ہلاکتوں کو بھی نہیں مان رہے اور تعداد کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عالمی امداد کے لیے ملک میں زیادہ متاثرین اور ہلاکتیں دکھائی جا رہی ہیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ اگر امداد کے لیے ہلاکتیں دکھائی جا رہی ہیں تو امریکا اپنی ہلاکتوں میں سب سے آگے کیوں ہے۔ امریکا کو تو کسی سے عالمی امداد نہیں لینی بلکہ امریکا تو امداد دینے والا ملک ہے۔ ملک میں لوگوں کو اپنی حکومتوں پر بھروسہ ہے نہ کورونا سے بچانے اور اپنی جان داؤ پر لگانے والے ڈاکٹروں کے خدشات پر اعتماد ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کے عوام آج نہیں بلکہ عشروں سے اپنی حکومتوں پر اعتماد نہیں کر رہے کیونکہ ماضی سے ہر حکومت عوام سے حقائق چھپانے کی پالیسی پر گامزن رہی ہے۔ ماضی میں لوگ غیر ملکی میڈیا کی خبروں پر اعتماد کیا کرتے تھے اور اب تو عالمی میڈیا بھی پاکستان کی کورونا صورتحال بتا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کو حکومتوں پر نہیں تو عالمی اداروں اور عالمی میڈیا پر اعتماد کرنا چاہیے۔ پاکستانی میڈیا کے مقابلے میں قابل اعتماد عالمی میڈیا سچ زیادہ دکھاتا ہے جس کے خدشات پر بے یقینی نہیں ہونی چاہیے۔
اپوزیشن ہی نہیں وفاقی حکومت کے حامی تجزیہ کار بھی حکومت پر بروقت درست فیصلے نہ کرنے اور سیاست کی بے بسی پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ وزیر اعظم اپنے نظریے کے مطابق سخت لاک ڈاؤن کے پہلے حامی تھے نہ اب لاک ڈاؤن بڑھانے اور مزید سختی چاہتے ہیں بلکہ برملا اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حمایت کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی عجیب پالیسی پر سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ جب کپڑے کی دکانیں بند رہیں گی تو درزیوں کے پاس سلائی کے لیے کپڑے کیسے آئیں گے۔ لاک ڈاؤن پر حکومتی پالیسی میں کوئی مداخلت نہیں کی جا رہی مگر امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم پر اعلیٰ عدالتیں، سیاسی و سماجی پارٹیاں مطمئن نہیں ہیں کیونکہ کسی حکومت کے پاس عوام کو مطمئن کرنے کے لیے صاف و شفاف پالیسی نہیں ہے۔ اپنی اپنی سیاست کے لیے الزام تراشی ہمیشہ ہوتی رہی جس سے متاثر صرف عوام ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کو اپنی بے بسی چھوڑ کر ریاست کی رٹ منوانے کے سخت فیصلے کرنے ہوں گے مگر مستقبل کا سیاسی مفاد اور عوام کے سڑکوں پر آجانے کا خوف ریاست کی مصلحت بنا ہو اور حکومتیں اور سیاسی جماعتیں ایک پیچ پر نہ ہوں تو عوام میں بے یقینی پھیلنا پیدا ہونا ضروری ہو جاتا ہے اور حکومتوں پر بداعتمادی بڑھتی ہے، اگر ریاست خود کو عقل کل سمجھ کر سیاست کرے گی، سیاسی مفاد کو ترجیح دے گی تو ریاستی بے بسی ختم ہو سکتی ہے نہ عوام میں پھیلی غیر یقینی، اس لیے سب کو اپنی اپنی ذمے داری سنجیدگی اور حقائق کے مطابق فیصلوں اور باہمی مشاورت کو یقینی بنانے پر فوری توجہ دینی ہوگی۔