وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو احساس انکم سپورٹ کا نام دے کر یہ سمجھ لیا ہوگا کہ نام کی تبدیلی سے لوگوں میں دوسروں کی امداد کا احساس پیدا کیا جائے گا، مگر بے حسی کے اس دور میں سیاسی کارکنوں سے منسوب نام ٹائیگرکا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ٹائیگر فورس بنا دی گئی ہے جو حکومت کے احساس پروگرام میں معاونت کے لیے ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی اپوزیشن کی پارٹی ٹائیگر فورس کی حامی نہیں اور اس فورس کو وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی حامیوں کی فورس سمجھتی ہے جسے پی ٹی آئی حکومت اپنے سیاسی مفاد کے لیے احساس پروگرام میں استعمال کر رہی ہے۔
حکومت اپنے احساس پروگرام سے عوام میں حب الوطنی اور غریبوں کے کام آنے کا احساس اس لیے پیدا نہیں کرسکی کہ اس پروگرام کو سیاسی بنا دیا گیا ہے اور سیاست میں ہمیشہ احساس نہیں مفاد مقدم رکھا جاتا رہا ہے، جس کا ثبوت پی پی حکومت کا اپنا سیاسی بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام تھا جس سے مستحقین، غریبوں اور عام لوگوں سے زیادہ سرکاری ملازمین اور سرکاری افسروں نے اپنی بیگمات کو مالی فائدہ پہنچایا اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی غریبوں اور ضرورت مندوں کو نہیں بخشا اور ان کا حق اپنے مال سمجھ کر کھایا۔ حکومت نے ایسے بے حسوں کے خلاف سخت ترین اور قابل عبرت سزا دینے کے بجائے صرف ان سے وہ رقم وصول کرنے کو ترجیح دی جو وہ وصول کرچکے تھے اور ان رشوت خوروں نے جو ہر کام میں رشوت وصولی کے عادی تھے اپنی خواتین کو بھی سرکاری مال کھانے پر لگا دیا کیونکہ وہ سرکاری ملازم ہونے کے باعث ہر سرکاری مال کھانا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
جب سے نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں انھوں نے اپنے ہی کارکنوں کو سرکاری ملازمتیں دیں اور جو عوام کے لیے امدادی پروگرام بنائے ان میں اپنے قائدین یا پارٹیوں کے نام سیاست کے باعث ضرور رکھے۔ پی پی نے اپنی قائد بے نظیر کے نام پر انکم سپورٹ پروگرام دیا۔ بھٹو حکومت میں پیپلز ڈیولپمنٹ پروگرام ہوتے تھے اور اب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت سے بے نظیر کا نام ہضم نہ ہوا تو نام بدل کر اسے احساس کفالت پروگرام کا نام دے دیا اور اب پنجاب حکومت نے اس سے بڑھ کر 25 لاکھ افراد کو بارہ بارہ ہزار کی امداد کے نام پر انصاف امدادی پروگرام پیش کیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پی پی کو ناراض نہ کرنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھا تھا جو تحریک انصاف حکومت نے تبدیل کردیا کیونکہ وہ تبدیلی لانے کے لیے اقتدار میں آئی تھی مگر پونے دو سال میں ملک میں کوئی تبدیلی نہ لاسکی تو اس نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام ضرور تبدیل کرکے دکھا دیا ہے جو ایک سیاسی کفالت پروگرام ہے، جس میں سے اپنے حصے کا مال نکالنا پی پی کارکنوں کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن بھی اپنا سیاسی حق سمجھیں گے۔
یہ وہ ملک ہے جس میں ایک شرعی فرض زکوٰۃ کو بھی سیاسی بنایا جاچکا ہے۔ زکوٰۃ کمیٹیوں میں سیاسی حکومتیں اپنے اپنے سیاسی کارکنوں کا تقررکرتی آئیں اور جہاں زکوٰۃ کمیٹیوں کے انتخابات ہوتے تھے وہاں اپنے لوگوں کو منتخب کرانے کے لیے زبردست دھاندلی ہی نہیں خون خرابہ بھی ہوتا آیا ہے تاکہ زکوٰۃ جس کی تقسیم کا شرعی حکم موجود ہے وہاں بھی شرعی حکم نظراندازکرکے سیاسی ضرورت کو ترجیح دی جاتی رہی ہے۔
احساس سے عاری لوگوں نے زکوٰۃ کی رقم کو اپنوں میں بانٹا اور خورد برد کو اپنا سیاسی حق سمجھ کر زکوٰۃ کا مال خود ہڑپ کیا ہو ان کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو، احساس کفالت پروگرام یا اب نیا انصاف امدادی پروگرام وہ کہاں پیچھے رہیں گے اور سیاسی ناموں کے عوام کے لیے مختص امدادی پروگراموں میں اپنا حصہ کیوں وصول نہیں کریں گے؟
ملک میں ضیا الحق نے زکوٰۃ پروگرام شروع کرایا تھا جو شروع میں غیر سیاسی تھا اور اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج اس کے سربراہ تھے۔ بعد ازاں سویلین حکومتوں نے زکوٰۃ و عشر کو محکمہ بنا کر اس کے سربراہ اپنے وزیر و مشیر بنا کر مذہبی فرض کو سیاسی بنادیا اور دارالامان قائم کیے تو وہاں بھی اپنے اپنے سیاسی لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ جو شروع ہوا تھا وہ تبدیلی حکومت میں بھی بند نہ ہوا۔ ماضی کی طرح احساس کفالت پروگرام اور دارالامان میں بھی اپنی مرضی کے سربراہ مقرر کیے گئے ہیں۔ حکومت اگر مخلص ہوتی تو ملک میں غیر سیاسی پاکستان فورس قائم کرکے احساس کفالت پروگرام کو غیر سیاسی و غیر متنازعہ بنایا جاسکتا تھا۔
جب حکومتوں نے اپنے ہر فلاحی پروگراموں میں اپنی پارٹی کی سیاست کی مداخلت شروع کی تو عوام کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں نے بھی ہر جگہ اپنے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح اپنا اصول بنالیا جس میں کاروباری لوگ اب تک سب سے آگے چلے آ رہے ہیں اور منافع خوری کے نئے نئے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔
دیگر مسلم و غیر مسلم ملکوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہاں تہواروں پر گرانی بڑھانے کے بجائے نرخوں میں عوام کی سہولت کے لیے کمی کردی جاتی ہے جب کہ پاکستان مسلم ملک ہونے کے باوجود اس لیے بدنام کرا دیا گیا ہے کہ جہاں مفاد پرستی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور عوام کو لوٹنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ پاکستان میں ہر تہوار پر لوٹ کھسوٹ ہو ا ہی کرتی تھی مگر اب کورونا جیسی عالمی وبا بھی ملک کے تاجروں میں احساس نہ جگا سکی۔ کورونا کو رمضان و عید سے بھی زیادہ کمائی کا ذریعہ بنالیا گیا اور مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں قدرتی آفتوں میں جب بھی غیر ملکی امداد آئی وہ کسی حکومت نے مستحقین تک نہیں پہنچائی بلکہ سرکاری اداروں نے اس میں بھی بڑے پیمانے پر خورد برد کرکے مستحقین کو عالمی امداد سے محروم رکھا تو عوام کیوں احساس کریں اور مفاد پرستی کا موقعہ ضایع کریں کیونکہ احساس تو پہلے حکومت میں ہونا چاہیے، جہاں کہیں عوام کا احساس نہیں ہے۔