Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Haqaiq

Haqaiq

امریکا میں مقیم تحریک انصاف کی بانی مگر ناراض محترمہ فوزیہ قصوری کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر سنا گیا جس میں انھوں نے کچھ حقائق بیان کیے ہیں جو وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی والوں کے لیے تلخ تو ضرور ہیں مگر حقائق پر مبنی ہیں۔

25 سال قبل جب تحریک انصاف بنائی گئی تھی تو اس میں ملک کی جو ممتاز شخصیات شامل ہوئی تھیں ان میں اچھی شہرت کے حامل سینئر سیاستدان معراج محمد خان اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین بھی شامل تھے۔

پی ٹی آئی میں اس وقت فوزیہ قصوری بھی عمران خان کے ساتھ بانی رکن کے طور پر شامل تھیں جن کو تحریک انصاف کے حلقوں میں نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا اور وہ عمران خان کو اپنے قائد کے ساتھ بھائی بھی قرار دیتی تھیں اور ہر وقت عمران خان کی حفاظت کے لیے اس قدر کوشاں رہتی تھیں کہ عمران خان پر کسی متوقع حملے کے خدشے کے تحت وہ اپنی جان بھی عمران خان پر نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔

فوزیہ قصوری پی ٹی آئی کے منشور اور عمران خان کی ایماندار شخصیت سے ازحد متاثر اور عمران خان کو ملک کی ترقی عوام کی فلاح و بہبود اور تبدیلی کی آخری امید قرار دیتی تھیں۔

انھیں توقع تھی کہ پی ٹی آئی کا منشور اور عمران خان کی شخصیت ہی کرپشن زدہ ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ فوزیہ قصوری نے طویل عرصے کی خاموشی کے بعد ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی اور تحریک انصاف کے منشور پر عمل نہ ہونے پر جس مایوسی کا اظہار کیا ہے وہ وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ ان کے خیال میں عمران خان کو مفاد پرست لوگوں نے گھیر کر پارٹی منشور پر عمل نہیں ہونے دیا اور عوام میں ان کی ایماندار ہونے کی ساکھ اور سیاسی شہرت کو نقصان پہنچایا اور اقتدار میں آکر عمران خان وہ عمران خان نہیں رہے جو 25 سال قبل تحریک انصاف کے قیام کے وقت تھے۔

آج عمران خان کے گرد جو لوگ جمع ہیں ان کا اقتدار ملنے سے قبل تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ فوزیہ قصوری حیران ہیں کیونکہ انھیں عمران خان سے ایسی امید نہیں تھی کہ وہ مفاد پرست سیاستدانوں کو پارٹی اور حکومت میں جمع کرلیں گے اور عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں سے دور اور اتنی جلدی نامقبول ہو جائیں گے۔

فوزیہ قصوری نے جب عمران خان کے اطراف پی ٹی آئی کے مخلص رہنماؤں اور کارکنوں کی بجائے روایتی سیاستدانوں کو دیکھا تو انھوں نے تحریک انصاف سے الگ ہو جانا بہتر سمجھا اور یہ ناخوشگوار فیصلہ کرکے سیاست سے دور رہنا مناسب سمجھا اور عمران خان سے دور ہوگئیں۔ فوزیہ قصوری کا کہنا ہے کہ اصول پسند شخص کو اقتدار میں آکر موقع پرست سیاستدانوں سے دور رہنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا۔

پی ٹی آئی کے وزرا کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ ہیں عمران خان کی بدولت ہیں۔ عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کچھ بھی نہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ عمران خان پی ٹی آئی میں کسی کو بھی اپنے مدمقابل کے طور پر آنے نہیں دیتے حالانکہ پی ٹی آئی میں قابل لوگ موجود ہیں مگر عمران خان نے ہمیشہ یہ چاہا کہ وہ جب بھی اسٹیج پر آئیں تمام روشنیاں ان پر ہی مرکوز ہوں اور کوئی دوسرا رہنما ان کا مدمقابل نہ بن سکے۔ اگر یہ درست ہے تو عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن میں کوئی فرق نہیں اور ان کی پارٹیاں ان کی شخصیت کی محتاج اور ان ہی کی مرہون منت رہیں۔

نواز شریف اپنے بھائی کی بجائے اپنی بیٹی کی سیاسی اہمیت چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پارٹی رہنماؤں کی بجائے اپنے بھائیوں اور بیٹے کو پارلیمنٹ میں منتخب کرا رکھا ہے اور وہ خود اپنے والد کی جگہ جے یو آئی کے سربراہ بنائے گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بھی کوئی متبادل نہ تھا مگر ان کی بیٹی نے پیپلز پارٹی کو سنبھال لیا تھا۔ بلاول بھٹو اپنے والد کا متبادل ہیں مگر تحریک انصاف میں عمران خان کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا ہے نہ کسی کو آگے آنے دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے اکثر بانی ارکان پارٹی چھوڑ چکے اور حقائق کی نشاندہی پر عمران خان ان سے دور ہوگئے۔ ان کی سیاست ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ فوزیہ قصوری نے اپنے جن حقائق اور تحفظات کا اظہار کیا ہے ایسے اظہار کی پی ٹی آئی کے مخلص ارکان میں بھی جرأت ہونی چاہیے۔

فوزیہ قصوری کے بقول جن کا کبھی نام نہ سنا تھا وہ وزیر اعظم کے اطراف اور مخلص رہنما دور ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے عمران خان کامیاب نہیں ہو پائے حالانکہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر نہیں کر پائے۔ عمران خان اگر اب بھی اپنے مخلص رہنماؤں کے حقائق کا ادراک کرلیں تو ہی وہ ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔