پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش کے بعد ایم کیو ایم پاکستان خبروں میں نمایاں ہے اور بلاول بھٹو کی پیشکش کے جواب میں دونوں طرف سے میڈیا میں جو بیانات آ رہے ہیں وہ کشیدگی بڑھانے کے نہیں بلکہ مفاہمتی آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر عاجز دھامرہ کا استفسار ہے کہ ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں بیٹھ کر رونا دھونا کس چیزکا کر رہی ہے۔
میئرکراچی اگر شہرکی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہم انھیں اپنے ساتھ مل کرکام کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے بلاول زرداری کی پیشکش کو مسترد نہیں کیا مگر فوری رضامندی بھی ظاہر نہیں کی اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت متحدہ کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول و دیگر رہنما جواب میں یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت میں رہنے سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ایم کیو ایم کو نقصان ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے کراچی کے لیے جو مالی اعانت کے اعلانات کیے تھے ڈیڑھ سال میں انھوں نے فنڈز دیے نہ کوئی وعدہ پورا کیا صرف وعدے اور آسروں کے سوا کراچی کوکچھ نہیں ملا۔
ایم کیو ایم شہری علاقوں میں بڑھے ہوئے احساس محرومی، نوکریوں میں نظر انداز کیے جانے اور اردو بولنے والوں کے ساتھ مسلسل ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف 1986ء میں وجود میں لائی گئی تھی، جو اس سے قبل تعلیمی اداروں میں اے پی ایم ایس او تھی اور ایم کیو ایم کے قیام کی وجوہات سو فیصد درست اور حقائق پر مبنی تھیں جسکی وجہ سے ایم کیو ایم کو فوری مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور نوجوانوں نے ہی نہیں بلکہ بزرگوں نے بھی اس کی حمایت کی تھی اور ایم کیو ایم کا کراچی میں رہنے والے ان لوگوں نے بھی ساتھ دیا تھا جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔
یہ بھی درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سندھ سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم تھے جنھوں نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرایا تھا جس کے نفاذ کی کچھ وجوہات جائز بھی تھیں اور سندھیوں میں احساس کمتری اور نظرانداز کیے جانے کی شکایات تھیں۔ کوٹہ سسٹم میں سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں ساٹھ فیصد اور چالیس فیصد ریشو اورکوٹہ سسٹم دس سال کے لیے مقرر تھا جس کے خاتمے سے قبل بھٹو حکومت ختم ہوگئی تھی اور سندھ میں دیہی اور شہری کی تفریق پیدا کرنے کوٹہ سسٹم جنرل ضیا الحق، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کے بعد بھی اب تک غیر آئینی طور پر چل رہا ہے جو ختم کیا گیا ہے نہ اس میں توسیع کی گئی ہے۔
کوٹہ سسٹم کو بھی ایم کیو ایم نے اپنے قیام کا جواز بنایا تھا مگر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور اب ڈیڑھ سال تک پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل رہنے کے باجود کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، البتہ دکھاؤے کے مطالبے ضرور کیے اور اس سلسلے میں عدالت سے کوئی فیصلہ لیا جا سکا ہے اور کبھی خبر نہیں آئی کہ ایم کیو ایم کے تینوں حکومتوں میں شامل وفاقی وزیروں نے اپنے وزیر اعظم سے غیر آئینی طور پر برقرار کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا کبھی مطالبہ ہی نہیں کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایم کیو ایم خود چاہتی ہے کہ کوٹہ سسٹم برقرار رہے تا کہ اس کی سیاسی ضرورت پوری ہوتی رہے۔
یہ بھی درست ہے کہ کوٹہ سسٹم برقرار رکھ کر پیپلز پارٹی ہی نے سندھ کو دیہی سندھ اور شہری سندھ میں تقسیم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو سندھ کی تقسیم کی بات اپنی ضرورت پر کرنا پڑتی ہے مگر وہ عملی طور پر ایسا چاہتی نہیں ہے۔
ایم کیو ایم کے پاس کراچی کا شہری اقتدار اور مشرف دور میں اہم وزارتیں رہی ہیں اور اس دور میں کراچی میں جو کچھ ہوا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ پی پی کے علاوہ سندھ کی جس حکومت میں شامل رہی اس نے بلاامتیاز لوگوں کی خدمت کی مگر یہ بھی غلط نہیں کہ ایم کیو ایم نے اپنے وفاداروں کو ترجیح دے کر نوازا اور اپنے بلدیاتی و دیگر محکموں میں اندھا دھند بھرتیاں اپنے لوگوں کی کیں۔
ایم کیو ایم کی اپنے قائد سے علیحدگی اور باہمی اختلافات کے نتیجے میں عام انتخابات سے قبل ہی صورتحال ایم کیو ایم کے لیے بہتر نہیں تھی اور قائد کے حامیوں نے الیکشن سے کنارہ کشی اختیار کی تھی مگر کراچی میں صورتحال اتنی بھی خراب نہیں تھی کہ ایم کیو ایم کو ضلع وسطی سے اس بری طرح شکست ہو کہ وہ نائن زیرو کے سب سے مضبوط قومی حلقے سے ہار جائے مگر ایم کیو ایم کے ساتھ جو ہوا وہ سب ہی جانتے ہیں۔
ایم کیو ایم کی مجبوری تھی کہ وہ تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت میں حلیف بنے اور صرف دو وزارتوں کے لیے اپنی ماضی کی دشمن جماعت کا ساتھ دے۔ ڈاکٹر خالد مقبول پہلی بار کنوینر اور وزیر بنے ہیں ان کی توجہ وزارت پر کم ہے تو وہ ایم کیو ایم پر بھی زیادہ توجہ نہیں دے رہے اور اپنی بے حیثیت وزارت میں ہی خوش ہیں جب کہ ہار کرکامیاب کرائے جانے والے ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کو اہم وزارت اور وہ بھی پہلی بار ملی ہے مگر ان کی مکمل توجہ اپنی وزارت پر ہے۔
ایم کیو ایم سے ان کا تعلق برائے نام اور مشہور وکیل ہونے کے ناتے ہی ایم کیو ایم سے ہے وہ پارٹی کے موثر رہنما نہیں ہیں اور اگر ایم کیو ایم وفاقی وزارتیں چھوڑتی ہے تو فروغ نسیم ان سے متفق نہیں ہوں گے اور وزارت پر برقرار رہنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ رہی بات عبدالوسیم کی کہ ہم حکومت گرانے والی کٹھ پتلی نہیں بنیں گے تو 1989ء میں بے نظیر بھٹو حکومت ختم کرانے میں ایم کیو ایم ایسا کر چکی ہے اور اس کے رہنماؤں کو کراچی سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز رہے ہیں جس کا الزام ان پر ماضی میں ان کے اپنے قائد بھی لگا چکے ہیں۔
پی پی کی گزشتہ سندھ حکومت میں کبھی ایم کیو ایم کو شمولیت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی جب کہ وفاقی حکومت میں نواز شریف کو بھی ان کی ضرورت نہیں تھی اور شہری حکومت پر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط رہے اور متحدہ مکمل طور پر اپوزیشن میں اور عتاب میں بھی رہی۔ 2018ء میں جو ہوا وہ بھی متحدہ رہنما جانتے تھے مگر انھوں نے ذاتی مفادات اور انا کی خاطر باہمی اختلافات ختم نہیں کیے اور اس کی سزا بھی بھگتی مگر ڈیڑھ سال میں میئر کراچی اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے تھے۔ کنوینر متحدہ و دیگر رہنماؤں نے متحدہ پر توجہ نہیں دی اور شہر میں کامیاب جلسہ بھی کر کے نہ دکھا سکے۔
بلاول زرداری نے اپنے والدکے کہنے پر اور وقت پر متحدہ کو وزارتوں کی پیشکش کی ہے۔ متحدہ کو خدشہ ہے کہ وہ اگر وفاق سے مایوس ہو کر اپنی دو وزارتیں چھوڑتی ہے تو پی ٹی آئی کو کہنے کا موقعہ ملے گا کہ ایم کیو ایم میں کسی کے ساتھ چلنے کی سیاسی صلاحیت ہی نہیں اور اس نے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پی پی حکومت سے بھی علیحدگی اختیار کی تھی اور اپنے گورنر کو صدر پرویز سے ملنے سے روکا تھا جنھوں نے ایم کیو ایم کو بہت زیادہ اہمیت اور کراچی کو سب سے زیادہ فنڈز دیے تھے۔
ایم کیو ایم کا عروج ختم اور مقبولیت بہت متاثر ہوئی ہے اور بلدیاتی انتخابات بھی اس سال ہونے ہیں اور پی ٹی آئی کی میئر کراچی کے عہدے پر بھی نظر ہے۔ اختیارات اب زیادہ صوبوں کے پاس ہیں۔ وفاق نے اب تک کراچی کو نظرانداز کر کے متحدہ کو مایوس کیا ہے وہ پہلے بھی پیپلز پارٹی کو آزما چکی ہے جو کراچی کے شہری علاقوں سے زیادہ مخلص نہیں رہی ہے۔ متحدہ اب پی ٹی آئی کو نگل سکتی ہے نہ اگل سکتی ہے اور پی ایس پی بھی اس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی وفاق میں متحدہ کی حمایت کی محتاج ہے جب کہ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم بھی مجبور ہے اور وہ اب اپنے طور فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتی اس لیے متحدہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جائے توکہاں جائے۔