قومی اسمبلی میں کورم کی نشاندہی کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا، مگر اس سے قبل حکومت نے اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران نیب ترمیمی آرڈیننس میں چار ماہ توسیع کی قرارداد منظور کرالی حالانکہ پیپلز پارٹی کے رکن نے کورم نہ ہونے کی نشاندہی بھی کی مگر اجلاس کی کارروائی جاری رکھی گئی، جس پر مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ 6 بار ایسا ہوا ہے اور کورم کی نشاندہی کے باوجود اجلاس جاری رکھا جاتا ہے۔
اس اجلاس میں بھی کورم نہ ہونے کے باوجود اجلاس جاری رکھنے پر اپوزیشن نے حسب سابق احتجاج بھی کیا اور احتجاجاً واک آؤٹ کیا جس کے بعد بھی حکومت اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور کورم نہ ہونے کے باوجود آرڈیننس میں توسیع ہوگئی۔ اس سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
قومی اسمبلی ملک میں قانون سازی کا واحد ادارہ ہے جس کے ارکان کا انتخاب براہ راست عوام کرتے ہیں جس کے بعد قومی اسمبلی کے ارکان حلف اٹھانے کے بعد اسپیکر کا انتخاب کرتے ہیں جو بعد میں ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کراتے ہیں۔ حکومت بنانے کی پوزیشن کا اکثر پہلے ہی پتا چل جاتا ہے اور اکثریتی پارٹی دوسرے حلیفوں کو ملا کر اپنا وزیر اعظم نامزد کرلیتی ہے جس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنا منتخب کرایا جائے تاکہ بعد میں من مانے قوانین کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر صدر مملکت کی ملک سے غیر حاضری کے بعد چیئرمین سینیٹ نہ ہونے کے بعد قائم مقام صدر بھی بن جاتے ہیں اور اقتدار میں آنے والی ہر حکومت کو اپنے بااعتماد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اب تک ہر حکومت نے ہمیشہ اپنی ہی پارٹی کے با اعتماد ارکان کو قومی اسمبلی کے دونوں عہدوں پر منتخب کرایا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے تو اپنی گزشتہ حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکرکا عہدہ کئی ماہ تک خالی رکھا تھا اور اپنے اسپیکر سردار ایاز صادق کی نشست خالی قرار دیے جانے کے بعد دوبارہ ایاز صادق کو رکن قومی اسمبلی منتخب کرا کر دوبارہ اسپیکر منتخب کرایا تھا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری ہو جانے کے بعد بھی اسپیکر نئی اسمبلی کے انتخاب تک اسپیکر رہتا ہے اور نو منتخب ارکان سے حلف لیتا ہے۔ سردار ایاز صادق کے سوا کوئی دوسرا شخص دوبارہ اسپیکر منتخب نہیں ہوا۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں صدر جنرل ضیا الحق کی آشیرواد سے سید فخر امام اسپیکر منتخب ہوئے تھے جن کے خلاف وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت نے تحریک عدم اعتماد منظورکرا کر اپنا بااعتماد رہنما حامد ناصر چٹھہ کو اسپیکر بنوایا تھا۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت پہلے صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے قائم ہوئی تھی جس کے اسپیکر چوہدری امیر حسین تھے جو معمولی اکثریت کے باوجود حکومت کے ہر اقدام کی حمایت میں پیش پیش ہوتے تھے۔
قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 343 ہے اور 172 ووٹوں کے ذریعے پہلے اسپیکر اور بعد میں وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں چاروں صوبوں کی مقررہ نشستوں پر ارکان منتخب ہوتے ہیں اور قومی اسمبلی میں پنجاب کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ اور بلوچستان کی سب سے کم ہے۔ پنجاب میں ارکان پنجاب اسمبلی کی تعداد قومی اسمبلی سے زیادہ ہے مگر قومی اسمبلی کے سوا کسی بھی صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں کورم کا اتنا مسئلہ کبھی نہیں ہوتا جتنا قومی اسمبلی میں آئے دن نظر آتا ہے۔
قومی اسمبلی میں کورم غالباً دس فیصد ارکان کی تعداد ہے جو نہایت کم ہے 343 ممبران کے ایوان میں تقریباً تین درجن ارکان ملک کے عوام کی قسمت اور ملک کے قوانین کے فیصلے کرتے ہیں، 22 کروڑ عوام کی تمام ذمے داری قائد ایوان پر ہوتی ہے جو وزیر اعظم منتخب ہو کر اپنے اس اہم ایوان میں اکثر آنا ہی پسند نہیں کرتے اور صرف اہم ضرورت یا مجبوری میں ایوان میں آتے ہیں تو ایوان بھر جاتا ہے کیونکہ سرکاری ارکان کو ہدایت دے کر بلایا جاتا ہے۔
جب وزیر اعظم ہی ایوان میں نہ آئیں تو وزیروں کو بھی غیر حاضری کا موقعہ مل جاتا ہے جب وزیر اعظم اور وزرا ہی ایوان میں نہ آئیں تو ان سے مل کر اپنے کام کرانے کے خواہش مند ارکان بھی نہیں آتے اور وزیروں کے دفاتر میں جا کر اپنے کام کراتے ہیں اور گھنٹوں بیٹھے خوش گپیاں کرتے رہتے ہیں اور وزیروں سے ملنے کے لیے آنے والے لوگ خوار ہوتے رہتے ہیں۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں اسپیکر پر تنقید کرتی رہتی ہیں مگر انھیں ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جو کورم کو اکثر نظرانداز کرتے آ رہے ہیں کیونکہ کورم پورا کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہے اور کورم کا مسئلہ صرف وزیر اعظم کے مسلسل ایوان میں آنے سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں صرف یوسف رضا گیلانی کا ریکارڈ بہترین تھا۔