ملک میں جتنی سیاسی ومذہبی جماعتیں ہیں، ان ہی کی وجہ سے قوم تقسیم ہے، کیونکہ ہر شخص اپنی مرضی، نظریے اور مفادکے لیے اپنی پسندیدہ پارٹی سے منسلک ہے۔ یہ لوگ اپنی جانبداری نہیں چھپاتے بلکہ جو کچھ درست سمجھتے ہیں وہ بلاجھجک اس کا اظہارکرتے ہیں اور یہ ہر ایک کا آئینی حق بھی ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی، ادارے اورشخصیت کو پسند کرے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے پاکستانی نہیں بلکہ پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، مہاجر اور دوسری قومیں آباد ہیں جسکی وجہ سے قومی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ لاتعداد لسانی اور علاقائی چھوٹی جماعتیں بھی موجود ہیں جب کہ مسلکوں کی بنیاد پر بنائی گئی مذہبی گروپوں کی کمی نہیں اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے اپنے مسلک کی جماعتوں کی حامی ہے۔
ملک میں خاموش اکثریت بھی ہے جو سیاست سے لاتعلق مذہبی مسلکوں کی حامی ہے اور اس وجہ سے اپنی رائے کا اظہار ضرورکرتی ہے۔ ملک میں سیاست کو ناپسند کرنیوالوں کی بھی کمی نہیں اس لیے وہ الیکشن کے دن گھروں سے نکل کر ووٹ دینے کی بجائے گھروں میں رہنا پسند کرتی ہے اور کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کو اپنے ووٹ کا اہل نہیں سمجھتی بلکہ گھروں میں رہ کر خاموش ہی رہنا اپنا حق سمجھتی ہے مگر ان کی خاموشی کو غیر جمہوری تصورکیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے انتخابات کے موقع پر عام تعطیل کے باوجود ووٹ دینے کے لیے نہیں نکلتے مگر یہ سب منقسم قوم میں شمار ہوتے ہیں۔ آج تک کسی بھی فوجی یا غیر فوجی حکمران نے ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے لیے قوم کو ایک اور متحد کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ایسا کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ملک میں جتنے بھی مارشل لا لگے وہ ملک کے سیاسی حالات کے باعث لگے اور سیاسی حالات بگاڑنے کے ذمے دار ہر حال میں سیاستدان ہی رہے ہیں۔ ملک میں مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ تحریک میں 1977 میں جو طویل مارشل لا لگا تھا وہ بھی بھٹو صاحب کی متنازعہ حکمرانی کے باعث لگا تھا اور تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے خود فوجی مداخلت کی اپیل کی تھی۔
ملک میں ہر سال صرف 14 اگست جشن آزادی پر ہی اتحاد اور اتفاق نظر آتا ہے۔ جشن آزادی دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں جولائی سے شروع ہوجاتی ہیں اور جشن آزادی پر قوم ہی نہیں ہر سیاسی و مذہبی جماعت، سماجی تنظیمیں اور تمام سرکاری مختلف تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ ملک بھرکو قومی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے۔
پورے دن جشن کا سماں رہتا ہے ریلیاں نکلتی ہیں جلسے ہوتے ہیں اور رات کو تمام سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں، گھروں، محلوں اور دکانوں پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے، بچوں، نوجوانوں اور شہریوں کے لبوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے ہوتے ہیں اور انھیں پتہ ہوتا ہے کہ 14 اگست کو ہمارا ملک وجود میں آیا تھا۔ آزادی کی قدر کے اظہار کے لیے بیجز وغیرہ کے ذریعے اپنے ملک سے محبت کا اظہار نہایت جوش و خروش سے کیا جاتا ہے۔
قوم کی سیاسی و مذہبی تقسیم میں کمی کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ملک کے تمام ادارے تقسیم اور متنازعہ بنائے جا چکے ہیں جسکے ذمے دار سیاستدان، مذہبی رہنما، افسران سمیت ہم سب ہیں اور یہ تقسیم اب اوپر سے نیچے تک پہنچ چکی ہے اور ملک میں واحد ادارہ پاک فوج باقی رہ گیا ہے جہاں ادارتی طور پر کوئی تقسیم ہے نہ انتقام اور سیاست سے پاک ادارے میں کبھی کوئی تقسیم نظر نہیں آئی اور پاک فوج کو حکومت نے جب بھی ضرورت پر ملک کے جس حصے میں طلب کیا فوج کی طرف سے انکار نہیں ہوا کہ ہمارا کام ملک کا دفاع ہے۔
پاک فوج نے زلزلوں، سیلابوں، بدامنی، اندرونی دہشتگردی جیسے اہم معاملات تو بجلی کے معاملات کی بہتری اور بدنام ڈاکوؤں کو گرفت میں لانے سے بھی انکار نہیں کیا اور بلاامتیاز ملک کے ہر علاقے میں جاکر خدمات انجام دیں اور ہمیشہ قومی مفاد مدنظر رکھا۔ فوج کا کام تو ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے مگر ہر دور میں پاک فوج سے وہ کام لیے گئے جہاں سویلین ادارے ناکام ہو جاتے تھے۔ مردم شماری میں ڈیوٹی فوج کی ذمے داری نہیں مگر فوج نے اس سلسلے میں بھی حکومت کی مدد کی اور مردم شماری میں اپنا ریکارڈ بھی رکھا۔ پاک فوج میں نچلی سطح پر بھی کوئی سیاست نہیں بلکہ اپنے باس کے احکامات کی تعمیل رہی ہے جب کہ دیگر کسی اور ادارے میں ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے فوج کے علاوہ ہر ادارے میں ڈسپلن کا فقدان ہے جس سے آوے کا آوا ہی بگڑ کر رہ گیا ہے اور تقسیم ہر جگہ نظر آجاتی ہے۔
تقسیم نے سیاست، مذہب، زبان، کھیلوں، رفاہی سرگرمیوں اور ہر شعبے کو ہی نہیں بلکہ خاندانوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے اور سب سے زیادہ تقسیم سیاست میں ہے جہاں بھائی بہن، ماں باپ اور میاں بیوی تک میں سیاسی تقسیم موجود ہے۔ خاندانوں کے ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ سیاسی بنیاد پر جس پارٹی یا رہنما کو چاہے ووٹ دے جب کہ مسلکوں میں ایسا بہت کم ہے۔
مسلک کی تقسیم میاں بیوی تک تو درست ہے جس کی وجہ پسند کی شادیاں ہیں جب کہ بھائیوں، بہنوں اور ماں باپ میں یہ تقسیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ محکمہ صحت اور تعلیم ایسے شعبے ہیں جہاں کسی بھی قسم کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے یہاں بھی لسانی تقسیم موجود ہے۔
کاروباری طور پر بھی تقسیم موجود ہے اگر دکاندار سے اس کی مادری زبان میں بات کی جائے تو چیز معیاری، اچھی اور مناسب نرخ پر مل جاتی ہے اور دفاتر میں بھی باہمی مادری زبانوں پر لوگوں کے کام جلد کردیے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ وہ کسی اسپتال میں اپنے بچے کو داخل کرانا چاہتا تھا جس پر اس سے جس دن داخلے کا وعدہ کیا گیا اور وہ وقت پر پہنچا اور داخلہ چاہا مگر ڈاکٹر نے اپنے ہم زبان کو بیڈ دے دیا اور پہلے طلب گار کو بیڈ خالی نہ ہونے کا کہہ کر انکار کردیا گیا جب کہ وہ پہلے سے ہی ضرورت مند تھا۔ اپنی قوم اور اپنے ہم زبان کو ترجیح دینا اپنی جگہ مگر صحت کے معاملے میں ضرورت مند مریض کو ترجیح دینا اخلاقی ہی نہیں انسانیت کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس طرح دوسرے کی جان جا سکتی ہے۔ صحت کے معاملے میں تو مذہب بھی نہیں دیکھا جاتا کیونکہ شرعی حساب سے بھی ہر جان اہم ہوتی ہے اس لیے ہم زبان تو کیا کسی ہم مذہب کو جان بچانے کے معاملے میں بہت اہم اور انسانیت کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
اسلام نے بھی کسی کی جان بچانے کو مسلمان ہونے سے مشروط نہیں کیا بلکہ اخلاق اور انسانیت کو ترجیح دی ہے۔ باہمی تقسیم اب ملک میں عروج پر پہنچا دی گئی ہے جو ملک و قوم کے لیے سخت نقصان دہ ہے مگر حکومت کو اس باہمی تقسیم کی کوئی فکر نہیں جس سے قومی وحدت متاثر ہو رہی ہے۔ سیاست اور مذہب کے لیے لوگوں کی تقسیم کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم ہجوم بن چکے ہیں قوم نہیں بن سکے۔ پاکستان مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لیے حاصل کیا گیا تھا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ہم مختلف لسانی قومی اور مذہبی اور مسلکی طور پر تقسیم ہیں اور کوئی پاکستانی بننے کو تیار نہیں۔