سیاست اور حصول اقتدارکا چولی دامن کا ساتھ ہے اور آج سیاست کسی اصول، نظریے اور اجتماعی مفاد کو نظرانداز کرکے اقتدار، دولت بڑھانے اور ذاتی مفاد ہی کے لیے کی جاتی ہے اور خلفائے راشدین جیسی سیاست توکبھی مسلم دنیا میں ان کے بعد کبھی ہوئی ہی نہیں بلکہ اب تو نیلسن منڈیلا جیسی سیاست بھی دنیا میں شاذ و نادر ہی باقی رہ گئی ہے۔
اس دنیا نے کیوبا کے فیڈل کاسترو اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد جیسے سیاستدان بھی کم ہی دیکھے ہیں جنھوں نے اپنی مقبولیت کی انتہا پر اقتدار اور سیاست چھوڑنا پسند کیا تھا۔ دنیا میں یہ مثالیں بھی موجود ہیں کہ دنیا کے مختلف شہروں کے بلدیاتی میئرز نے اپنے دور میں شاندار اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس کی بنیاد پر وہ اپنے ملکوں میں صدر اور وزیر اعظم کے اعلیٰ حکومتی عہدوں تک پہنچے۔
بلدیاتی اداروں کو سیاست اور جمہوریت کی نرسری دنیا بھر میں قرار دیا جاتا ہے۔ بلدیاتی ادارے کی کونسلری اور چیئرمینی کے ذریعے وزارتوں تک پہنچنے کی بے شمار مثالیں تو پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں چور دروازے سے اقتدار میں آنے ہی کی نہیں بلکہ بعض افراد کو بیرون ملک سے بلاکر اقتدار اعلیٰ پر مسلط کرنے کی مثالیں بھی معین قریشی اور شوکت عزیزکی صورت میں موجود ہیں اور نگران حکومتوں میں کارکردگی کی بجائے سفارش اور اپنوں کو نوازنے کے مواقعے بھی میسر آتے رہے ہیں اور یہاں تک ہوا کہ دیگر اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد کو بھی نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر بنایا گیا اور وہ ساری عمر کے لیے سابق گورنر، سابق وزیر، نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ کہلانے کے ضرور حقدار بن جاتے ہیں جن کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ آتے ہی محدود مدت کے لیے ہیں۔
محدود مدت میں ہی بعض نگران جہاں ذاتی مفادات اٹھاتے اوراپنوں کو نواز لیتے ہیں، وہاں ایک ایسے نگران وزیر اعظم بلوچستان سے آئے تھے جو خود بھی ریٹائرڈ جج تھے اور انھیں نگران وزیر اعظم بنائے جانے کی توقع بھی نہیں تھی اور جب ان کی تقرری کا اعلان ہوا تو ان کی خوشی دیدنی تھی مگر وہ اپنے آبائی علاقے کے عوام کو تحفے دے گئے تھے اور صحبت پور کو جو پس ماندہ علاقہ تھا بلوچستان کا نیا ضلع بنا گئے تھے۔
راقم کے اپنے آبائی شہر شکارپور میں کبھی سومرو فیملی کی سیاست عروج پر تھی مگر ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنے شہرکی تعمیر و ترقی کے لیے اقتدار میں بھی رہتے ہوئے بھی کوئی کام نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی سیاست تباہ ہوگئی اور انھیں سیاست کے لیے شکارپور سے جیکب آباد منتقل ہونا پڑا جہاں ان کی زمینیں تھیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ اللہ بخش سومرو کا تعلق شکارپور سے تھا جنھیں بعد میں شکارپور کے مشہور شاہی باغ سے گھر آتے ہوئے ٹانگے میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد شاہی باغ کا نام شہید اللہ بخش پارک رکھا گیا مگر اب بھی اس پارک کو شاہی باغ ہی کہا جاتا ہے۔
اللہ بخش سومرو کے بڑے صاحبزادے احمد میاں سومرو جیکب آباد منتقل ہوگئے تھے جن کے صاحبزادے محمد میاں سومرو پہلی بار جیکب آباد سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر ہیں۔ چیئرمین سینیٹ، نگران وزیر اعظم اورگورنر سندھ رہے ہیں مگر وہ شکارپور سے مایوس ہوکر اپنا تعلق ختم کرچکے ہیں۔ سومرو فیملی نے اپنے شہر کے لیے کارکردگی دکھائی ہوتی تو انھیں متعدد بار شکست نہ کھانا پڑتی۔ اللہ بخش سومروکے چھوٹے بھائی حاجی مولا بخش سومرو اور دوسرے صاحبزادے رحیم بخش سومرو شکارپور سے آخری بار 1970 کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے اور بھٹو دور میں عتاب میں رہے اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال کر مولا بخش سومروکو اپنا مشیر بنایا تھا۔
بھٹو دور میں شکارپور ضلع بنایا گیا تھا جسے جنرل ضیا نے ختم کردیا تھا جس کی بحالی کے لیے حاجی مولا بخش نے کوشش کی تھی اور سکھر آمد پر جنرل ضیا نے شکارپور ضلع کو 1978 میں بحال کرکے مولا بخش سومرو کو تحفہ دیا تھا اور یہی حاجی مولا بخش کی کارکردگی شمار ہوئی اور وہ شکارپور ہی میں دفن ہوئے جن کے بڑے صاحبزادے الٰہی بخش سومرو ایک منصوبے کے تحت 1985 میں شکارپور سے بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی قرار پائے تھے مگر انھوں نے بھی اپنے شہر کے لیے کچھ نہ کیا اور ناکام رہ کر بعد میں جیکب آباد جا بسے وہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے اور اب سیاست چھوڑ چکے ہیں۔
شکارپور ضلع کی سیاست میں 1979 میں شکارپور سے تعلق نہ رکھنے والے غوث بخش مہر پہلی بار چیئرمین ضلع کونسل بنے اور اپنی اچھی کارکردگی کے بعد ہیٹ ٹرک مکمل کی پھر ان کا صاحبزادہ دوبارہ ضلع ناظم رہا اور وہ صوبائی نشست کے بعد 1988 سے مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آرہے ہیں۔
وزیر ریلوے بن کر اپنے حلقے کے لوگوں کو ریکارڈ ملازمتیں دی تھیں جب کہ ان کا تعلق شکارپور شہر سے نہیں تحصیل لکھی غلام شاہ کے دیہی علاقے وزیر آباد سے ہے۔ اپنی کارکردگی کے باعث غوث بخش مہر نے اپنے حلقے جس میں اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کا آبائی علاقہ گڑھی یٰسین بھی شامل ہے کے لوگوں کا اعتماد حاصل کر رکھا ہے اور ان کا بیٹا شہریار مہر بھی رکن سندھ اسمبلی ہے اور دونوں کا تعلق مسلم لیگ فنکشنل سے ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے 11 سالوں میں لکھی اور گڑھی یٰسین میں اپنے اسپیکر کی وجہ سے وہ کام نہیں ہونے دیے جو غوث بخش مہر اپوزیشن میں رہ کر کرانا چاہتے تھے اور پیپلز پارٹی اپنی دس سالہ حکومت میں غوث بخش کا سیاسی اثر ختم نہیں کرسکی ہے کیونکہ غوث بخش کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں۔
موجودہ حکومت میں ریلوے کا تجربہ رکھنے والیوزیر بھی اس بار اس لیے ناکام ہیں کہ انھوں نے کارکردگی کی بجائے سیاست کو ترجیح دے رکھی ہے اور روزانہ میڈیا میں رہنے کے لیے انھیں شریفوں کو نشانہ بنانے کا شوق ہے جب کہ محکمہ ریلوے کے خسارے پر ان کی توجہ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر سے ماحول خراب اور الزامات لگانے والے وزیر مواصلات کا محکمہ خسارے میں ہے مگر انھیں اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے اور وزیر اعظم کو خوش رکھنا ہی ان کا مشن ہے۔
اپنے دعوؤں پر پورا اترنے کی بجائے میں نے اللہ کو جان دینی ہے کی گردان کرنے والے وزیر نارکوٹکس، رانا ثنا اللہ کے کیس میں ثبوت پیش نہیں کرا سکے اور ان کی کوشش سیاست پر مرکوز اور کارکردگی صفر ہے۔