وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے مہاتیر محمد کو سیاسی میدان میں اپنا گُرو کہا کرتے تھے۔ مہاتیر محمد ملائیشیا کے سربراہ مملکت ہوتے ہوئے خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے اُن کے مہمان بھی بنے اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد جن چند ملکوں کا وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے دورہ کیا۔۔۔ اُن میں ملائیشیا بھی شامل تھا۔ مگر 90سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد جو اقتدار میں آکر انہوں نے ریکارڈ بنایا۔۔۔ وہ انہیں راس نہ آیا۔ اور سال سے پہلے ہی اقتدار سے محروم ہوگئے۔
یہ تمہید اس لئے باندھی کہ ان دنوں ہمارے وزیر اعظم محترم عمران خان ساٹھ کی دہائی کو پاکستان کی معاشی تاریخ کا روشن باب قرار دے رہے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ ہمارے وزیر اعظم کے ارد گرد کو ن سے ایسے مشیر اور معاونین ہیں جنہوں نے انہیں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور ِ اقتدار کے ثمرات سے آگاہ کیا۔۔۔ کم از کم ہمارے سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین تو ہو ہی نہیں سکتے کہ نہ جانے دو سال سے کیوں نوکری سے لگے ہیں۔۔۔
معیشت کا آدمی نہیں ہوں۔ مگر یہ ایو ب خان کا پہلا مارشل لاء ہی تھا جس سے پاکستان کی معاشی تباہی و بربادی کا آغاز ہوا۔ سارا دوش تو جنرل یحییٰ خان کے فوجی ٹولے کی سرمستی و سرشاری کو دیا جاتا ہے۔۔۔ مگر یہ جنرل ایوب خان اور اُن کے مشیر ہی تھے جو طے کئے بیٹھے تھے کہ جلد سے جلد مشرقی پاکستان سے جان چھڑا نی ہے۔
اور اسی لئے انہوں نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی۔ اکثریت میں ہونے والے بنگالیوں کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے۔ فوج میں تو شائد اِکّا دُکّا ہی بریگیڈیئر یا اُس سے اوپر پہنچے ہوں۔۔۔ مگر سول سروس میں 54فیصد بنگالیوں میں کوئی بھی اس قابل نہ سمجھا گیا کہ اُسے گریڈ 22کے عہد ے پر فائز کیا جاتا۔۔۔"کراچی سے اسلام آباد" دارالحکومت لے جانا جنرل ایوب خان کا دوسرا ناقابل ِ تلافی جرم ہے۔ کراچی والا ہونے کے حوالے سے میں اسے مہاجر دشمنی تونہیں کہوں گا، مگر ایوب خان عوام کے سیاسی شعور سے خوفزدہ تھے اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کے لئے اسلا م آباد جیسا محفوظ مقام منتخب کیا۔
ایوب خان کوئی سیدھے سادے "رنگروٹ " پٹھان فوجی نہ تھے۔ انگریزی سرکار کے غلام بلکہ ابن غلام۔ پاکستان کے پہلے انگریزی آرمی چیف جنرل گریسی نے انہیں ۹۵۱ ۱ء میں ہی یہ سبق پڑھا دیا تھا کہ جب وہ لیفٹننٹ جنرل تھے کہ مستقبل میں پاکستان کی عنان ِ اقتدار صرف جنرلوں کے ہاتھوں ہی میں محفوظ رہ سکتی ہے۔ اور منتخب یا نامزد وزیر اعظم کو اُس کے تابع ہونا ہوگا۔ اس بات کا ذکر میں پہلے بھی سابق جنرل نواب شیر علی خان پٹودی کے حوالے سے دے چکا ہوں۔۔۔ اور پھر۶۵ ۱۹ء کی جنگ کے بعد توخصوصی طور پر انہوں نے ایک وفد مشرقی پاکستان بھیجا جس کا ذکر جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب "جناح ٹو ضیاء "میں کیا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان کی قیادت کو پیشکش کی تھی کہ "بہتر ہے ایک پُر امن اور قابل عمل فارمولے کے تحت آپ علیحدگی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں "۔۔۔ اس پر اُن کا جواب تھا کہ "پاکستان کی بانی مسلم لیگ ڈھاکہ میں بنی، ہم اکثریت میں ہیں، بہتر ہے آپ علیحدہ ہو کر نیانام رکھ لیں۔"
جی ہاں، ہمارے کپتان وزیر اعظم اپنی سیاسی تاریخ سے ناواقفیت کے سبب ساٹھ کی دہائی کے اُس حکمراں کے دور کو سنہری قرار دے رہے ہیں، جس نے "مشرقی پاکستان" کی علیحدگی کی نیو رکھی۔۔۔ جی ہاں اُس مشرقی پاکستان سے جہاں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ جہاں غیر منقسم بنگال سے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی منتخب ہوئے تھے، جس کے دارالحکومت ڈھاکہ کو "مسجدوں کا شہر" کہا جاتا تھا۔۔۔ مگرتعلیمی اور سیاسی طور پر بنگالی بہت آگے تھے۔ اس لئے ایوب خان اور ان کے فوجی اور سویلین بابو ہمیشہ انہیں اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ پھر۹۵۴ ۱ء میں پہلے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن میں جو مسلم لیگ کو بد ترین شکست ہوئی تھی، اُس سے بھی مغربی پاکستان میں بیٹھے حکمران یہ سمجھتے تھے کہ مشرقی پاکستان اُن کا تابع رہے گا۔۔۔
اور جب بھی عام انتخابات ہوئے تو آبادی کے اعتبا ر سے ۵۴فیصد بنگالیوں کی نمائندہ جماعت ہی اقتدار میں آئے گی۔ اور جی ہاں، یہ انکشاف کسی اور نے نہیں خود اُن کے دور کے معاشی منیجر ڈاکٹر محبوب الحق نے کیا تھا کہ پاکستان کی ساری دولت 22خاندانوں میں سمٹ آئی ہے۔ وراثت کی سیاست ہی نہیں بلکہ مال و دولت سے اپنی آل اولاد کو مالا مال کرنے کی روایت بھی جنرل ایوب خان نے ڈالی۔۔۔ اُن کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب فوج میں کیپٹن تھے۔ ریٹائرڈ کرکے اپنا ملٹری سکریٹری بنایا اور پھر 22خاندانوں میں سے ایک جنرل حبیب اللہ خان کے حوالے کر کے "گندھارا "انڈسٹری کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہی گوہر ایوب تھے جنہوں نے اپنے والد کی تاریخی فتح کا جشن کراچی میں آگ لگا کر منایا تھا۔ ایوبی آمریت کے سیاہ دنوں پر آیا ہوں تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔۔۔
امریکہ کی معاشی و سیاسی غلامی میں بھی سب سے بڑا ہاتھ جنرل ایوب خان اور اُن کے ٹولے کا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیگم جیکولین کے ساتھ ان کی ایک تصویر اُس زمانے میں شائع ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ گھوڑ سواری کررہے ہیں۔ اور امریکی نائب صدر لنڈن بی جانسن کا تو اس طرح استقبال ہوا جیسے وہ وائسرائے ہو۔ ایوبی دورمیں امریکہ سے اتنی عسکری اور مالی امداد لی کہ عملی طور پر پاکستان کی حیثیت امریکہ کی ایک طفیلی ریاست کی ہوگئی اور جس کے سبب کمیونسٹ بلاک کی دشمنی مول لینی پڑی مگر۔۔۔ یہ ایک الگ طول طویل موضوع ہے۔ (جار ی ہے)