کورونا وائرس کے ہنگام میں جو میں نے امریکی صحافی ڈینیل پرل کے 18سال قبل لرزہ خیز قتل کرنے کی سازش کرنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری عمرشیخ کی سندھ ہائی کورٹ سے رہائی کا ذکر کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی کتاب سے وہ اقتباس پیش کیا تھا، جس میں اس وقت کی آئی ایس آئی نے شیخ عمر سمیت سارے ملک میں پھیلے القاعدہ اور طالبان کے نیٹ ورک کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا تھا۔۔۔۔ تو ہمارے کچھ میڈیا کے سرخیلوں کو دیکھیں کہ پرویز مشرف سے تعصب بلکہ انتقام میں کتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ ان دہشت گرد وں تک کے دفاع میں آگئے۔ ہمارے ہاں کالے کوٹوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی سب سے بڑی تحریک چلائی۔ اس اعتبار سے اُن کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ قاتلوں تک کا دفاع کریں۔ مگر کیا ہزاروں معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنے والے اور مساجد اور امام بارگاہوں تک کو نشانہ بنانے والوں کا بھی دفاع کیا جائے؟
آج ہی ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ لندن سے ایک وکیل عمر شیخ کا دفاع کرنے آرہے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی برہمی بجا طور پر درست ہے کہ اس وقت کورونا وائرس کے نام پر قاتلوں اور دہشت گردوں کو رہا کر کے کیاہم پہلے ہی سے کورونا کی دہشت کا شکار عام آدمی کو مزید غیر محفوظ تو نہیں بنا رہے۔۔۔ عمر شیخ کون تھا۔ اور کیسے کیسے ہولناک جرائم میں ملوث رہا، اس کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ ذرا مزید آگے بڑھ کر اس کی سفاکی ملاحظہ فرمائیں :
"اس کے بعدعمر شیخ کراچی آیا۔ کراچی میں امجد فاروقی نے اسے ایک مقبول ریستوران جس کا نام "اسٹوڈنٹ بریانی" تھا، بھیجا اور کہا کہ وہاں اُسے ایک حسین نامی آدمی ملے گا۔ عمر شیخ اپنے دو ساتھیوں ہاشم غفور اورسلمان ثاقب کے ہمراہ وہاں گیا۔ ان تینوں کی حسین سے ملاقات ہوئی۔ جو انہیں لے کر آغا خان ہسپتال گیاجہاں ایک اور آدمی سے، جس نے اپنا نام احمد بتایا، ملاقات ہوئی۔ احمد بھائی ہی تھا، جسے امجد فاروقی نے پرل کو اغواء کرنے کا کام سونپا تھا۔"
ملاقات کے بعد عمر شیخ کو یقین ہوگیا کہ احمدبھائی کو اس قسم کی کارروائی کرنے کا کافی تجربہ ہے۔ اس نے احمد بھائی سے پوچھا کہ وہ جگہ دکھائی جائے، جہاں پرل کو رکھا جائے گا۔ لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ جگہ چونکہ دوسری کاروائیوں کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے، لہٰذا اسے نہیں دکھایا جاسکتا۔ عمر شیخ کی درخواست پر احمد بھائی نے ایک انگریزی مترجم کا انتظام کرنے کا وعدہ کیا۔ اُس شام، عمر شیخ اپنے دوست عادل شیخ کے ہمراہ میکڈونلڈMcDonald's گیا۔ یہ وہی دوست ہے، جس سے بعد میں ہم نے عمر شیخ کے ٹیلی فون نمبر حاصل کئے تھے۔ اس نے عمر شیخ کو تنہائی میں پرل کے اغوا کے منصوبے کی تفصیل بتائی۔ عادل، جس کی تربیت بھی افغانستان میں ہوئی تھی، جذباتی ہوگیا اور اُس نے سازش میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ 22 جنوری 2002ء کو عمر شیخ اور احمد بھائی کے درمیان آخری ملاقات ہوئی۔ احمد بھائی کاایک اور ساتھی امتیاز اور عادل بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ یہ فیصلہ ہوا کہ احمد بھائی اغواء کی تصدیق کے ثبوت کے طور پر، پرل کے اغواء ہونے کے بعد، اس کے فوٹو عمر شیخ کو ایک خاص مسجد میں پہنچائے گا۔ پھر انہوں نے ایک polaroid خریدااور احمد بھائی کو اس کا استعمال سکھایا۔ اس کے بعد عمر شیخ نے احمد بھائی کو 17ہزار روپے دئیے اور دونوں آدمیوں کو دو تحریری پیغامات دئیے، ایک انگریزی اور دوسرا اردو میں اور ہدایت کی کہ وہ اغواء کے بعد پرل کے فوٹو کے ساتھ وہ پیغامات اخبارات کو ای میل (Email) کردے۔
"اب صرف شکار کا دام میں آنا باقی تھا۔ عمر شیخ نے پرل کو ای میل بھیجی اور مطلع کیا کہ افتخار نامی ایک آدمی اُسے ایئر پورٹ پر ملے گا اور پیر مبارک علی شاہ جیلانی کے پاس کے پاس لے جائے گا۔ افتخار، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ایک فرضی نام تھا۔ جو آدمی پرل سے ملا، وہ احمد بھائی کا ساتھی تھا۔ پرل 23جنوری 2002ء کو کراچی پہنچا اور اسی دن حسین، عادل، احمد بھائی اور امتیاز نے اسے ایک بڑے ہوٹل کے قریب اغواء کرلیا۔ عمر شیخ اسی روز لاہور واپس چلا گیا۔ اس شام حسین نے اسے مطلع کیا کہ کام ہوگیا ہے۔ اس کے بعد عمر شیخ ہمہ وقت سلیمان ثاقب، عادل، حسین اور احمد بھائی کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہا تاکہ ان پر نگا ہ رکھ سکے اور ہدایت دے سکے۔ پہلے میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ عمر شیخ نے اپنے آپ کو کیوں پولیس کے حوالے کیا تھا۔ وہ فرار کیوں نہیں ہوگیا۔ لیکن جب پہیلی کی تمام کڑیاں مل گئیں، تب میں سمجھا کہ صورتحال اُس کے قابو سے باہر ہوگئی تھی اور وہ گھبرا گیا تھا۔ اُسے اخبارات کے اتنے شدید رد عمل کی امید نہیں تھی، اُسے یہ امید بھی نہیں تھی کہ پولیس اُس کا، اُس کے دوستوں، خاندان اور ساتھیوں کا کھوج لگانے میں اس حد تک کامیاب ہوجائے گی، اُسے یہ بھی احساس نہیں تھا کہ وہ افراد، جنہوں نے پرل کے اغواء میں اُس کی مدد کی تھی، وہ سب عادی مجرم تھے اور ضروری نہیں تھا کہ وہ اس کی ہدایات مانتے۔ اب وہ سوچ کر کہ اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے کے نتیجے میں شاید اس کے ساتھ نرمی برتی جائے، اپنی جان بچانے کی کوشش کررہا تھا۔"
21 فروری 2002ء کو پرل کے قتل کی اصل ویڈیو جاری ہوئی۔ وہ انتہائی بھیانک تھی۔ اس میں قاتلوں کے چہرے نہیں دکھائے گئے۔ علاوہ ازیں، ہم کسی کو ابھی تک پکڑ نہیں پائے تھے۔ پھرمئی 2002ء میں ہم نے فضل کریم نامی ایک شخص کو، جو ایک مذہبی جماعت کی تشدد پسند شاخ کا کارکن تھا، حراست میں لیا۔ ہم نے اسے کسی اور وجہ سے گرفتار کیا تھا لیکن جب تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ وہ پرل کے قتل میں بھی ملوث تھا۔۔۔" (جاری ہے)