کورونا کی جبری گھر بندی نے یہ ضرور کردیا ہے کہ برسوں سے گرد پڑی کتابوں کی نہ صرف صفائی ہوگئی بلکہ یہ روح کی غذا بھی بنی ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا ہے کہ صرف "نرم گرم" پڑھا جائے۔ فراق ؔگورکھپوری یاد آگئے۔ کراچی کے ایک مشاعرے میں پچاس کی دہائی میں آئے تو سامعین پر نظر ڈالی اور اوراق پلٹتے جاتے، ساتھ ہی کہتے جاتے:"یہ ذرا سخت رہے گا، یہ بھی گراں رہے گا، ہاں، یہ چل جائے گا۔"اور پھر یہ شعر پڑھا:
ذراوصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
سو ہم نے بھی معاشیات، سیاسیات، بین الاقوامیات کو پرے رکھ کر سعادت حسن منٹوکے مشہور زمانہ خاکوں سے گرد جھاڑی۔"گنجے فرشتے"، "لاؤڈ اسپیکر"۔۔۔ ایک ایک خاکہ ایسا کہ 70سال پہلے لکھا گیا ہے مگر ایسے دلکش پیرائے میں کہ ساری شخصیت کا سراپا اپنی خوبیوں، خامیوں کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔ آغا حشر کاشمیری، اختر شیرانی، میرا جی، عصمت چغتائی، باری علیگ، پری چہرہ نسیم۔۔۔ مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے اپنی ملکہ ٔ ترنم نور جہاں کا خاکہ درجنوں بار پڑھنے کے بعدبھی، ابھی دوسری بار ختم کیا ہے۔ مگرا یسا لطف دے رہا ہے کہ تیسری بار کی خواہش ہے۔ طبیعت تو مچل رہی ہے کہ چند سطریں کاغذ کے سپرد کردوں۔ مگر ایک تو ماہِ مقدس، پھر ملکہ ٔ ترنم نور جہاں کو 65اور70کی جنگ میں گائے قومی ترانوں کے سبب قومی محسنوں اور مجاہدین صف شکن میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس لئے منٹو کے خاکے "نور جہاں، سرور جہاں "کو ایک طرف رکھتا ہوں۔
ہاں، ہمارے لاہور کے فقیر اعجاز الدین نے اپنی کتاب کے ایک باب میں "سقوط ِ ڈھاکہ" کے دوران ایک واقعہ کا بڑا دلفریب نقشہ کھینچا ہے۔ فقیر اعجاز الدین لکھتے ہیں وہ اپنے قریبی رستے کے تعلق سے ایک شام "ایوان ِ صدر" پہنچے۔ حسب ِ روایت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر یحییٰ خان، راجہ اندر بنے بیٹھے تھے۔ وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں ایک بڑے سے صوفے پر "آغا جی"، جی ہاں، ملکہ ترنم صدر مملکت جنرل یحییٰ خان سے پیار سے اسی طرح مخاطب ہوتی تھیں۔ آغا جی کے سامنے اُن کے تمام محبوب مشروب، دائیں بائیں دھرے تھے اور جنرلوں کی ساری کور دوزانو۔ محفل کی نظر میں مرکزی دروازے پر تھیں اور پردہ گرا تو ہماری ملکہ ترنم نور جہاں، بیگم نواب جونا گڑھ سازندوں کے جلوس میں ایرانی گدیلے قالین پر جلوہ افروز ہوئیں۔ ادھر مشرقی بنگال میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، ہمارے جوان ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کا "کمانڈر" میرا ماہی چھیل چھبیلاپر سرمست و سرشار ی میں جھوم رہا ہے۔ محفل تمام ہوئی۔ افواج کے تینوں کمانڈروں کو آغاجی کاحکم ہوا کہ ملکہ ترنم کی شایان شان انہیں رخصت کیا جائے۔ ہمارے سابق سفارتکار کرامت اللہ غوری نے اپنی تازہ سوانح میں اعتراف کیا کہ وہ اور اُن کے سفیر ملکہ کی جاپان میں آمد پر ٹوکیو ائیر پورٹ پر گالیاں کھا کے بد مزہ ہوتے رہے۔ مگر "فارن سروس" کی اکثریت جرأت، حمیت گھر کی طاق پر رکھ کر ترقی کی منازل طے کرتی ہے جس کا اعتراف غوری صاحب نے کیا بھی ہے۔ ہمارے سفیر صاحب کا غالباً پہلی بار ملکہ صاحبہ سے پالہ پڑا تھا۔ لکھتے ہیں :
"یحییٰ پاکستان کی تاریخ ِ سیاست میں جہانگیر ِ ثانی تھے۔ شہنشاہ سلیم یا جہانگیر نے ان کے اپنے ملفوظات کے بقول ہندوستان کی سلطنت ِ ایک پاؤ پارچۂ لحم اور ایک پیالہ مہ کے عوض اپنی ملکہ نور جہاں کے ہاتھوں بیچ دی تھی۔ لیکن ہمارے شہزادہ سلیم کے حرمِ ناز میں بہت سی نورجہاؤں اور اتنی ہی پردہ نشینوں کے نام تھے جن میں میڈم نور جہاں سرفہرست تھیں۔ صرف وہی تھیں جو پیار سے یحییٰ خان کو آغا جی کہہ کے پکارنے کا استحقاق رکھتی تھیں۔ آخر کو وہ ان کے شہزادہ سلیم تھے۔ اور اپنے اس استحقاق کو میڈم کس دھڑلے سے اپنی منفعت کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ اس کا اندازہ تو مجھے سال بھر بعد اس وقت ہو ا جب میں مشرقی پاکستان کے المیے کے آخری اور انتہائی نازک اور حساس ایام میں ایک سفارتی تھیلہ(diplomatic bag) لے کر منیلا، فلپائن سے جہاں میں ان دنوں تعینات تھا ٹوکیو گیا تھا کہ وہ تھیلہ با حفاظت اپنے سفارت خانے تک پہنچاسکوں۔ اُس عہد میں سفارت خانوں کے لئے حساس اور خفیہ سرکاری مواد صرف سفارتی تھیلے میں بھجوایا جاتا تھا۔ معمول کے حالات میں یہ تھیلے ہوائی کمپنیوں کی تحویل میں ارسال کئے جاتے تھے۔ لیکن مشرقی پاکستان کے قضیہ کے شروع ہونے کے بعد یہ ذمہ داری خصوصی نامہ بروں کو جنہیں سرکاری اصطلاح میں diplomatic courier یا سفارتی پیغام رساں کہا جاتاہے، سونپی جاتی تھی۔ ٹوکیو کے نام کا سفارتی تھیلہ ہمارے ہاں منیلا تک دفتر خارجہ کا ایک ایلچی لے کر آیا تھا اور وہاں سے ٹوکیو تک پہنچانے کی ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی تھی۔
"اس سفر میں راستے میں، میں نے اوکی ناوا (Okinawa) کے جزیرے میں جو جاپان کے انتہائی جنوبی پھلنگ پر واقع ہے، وہ چٹان دیکھی تھی جو سمندر کے اوپر سد سکندری کی طرح کھڑی ہے اور جس سے کود کر 10اگست 1945کو (جس دن جاپان کے شہنشاہ نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے ہاتھوں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے تھے)5ہزار جاپانی شہریوں نے سمندر میں خود کو ڈبو کر خود کشی کی تھی۔ ان کے Shinto مسلک میں غیرت کی موت خودکشی نہیں تھی۔ اور ا ن کی غیرت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھی کہ ان کا ملک اور ان کا شہنشاہ ان کی لعنت کے بموجب سفید فام وحشیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔""میرے دل نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ غیرت مند جاپانیوں کی طرح خودکشی کرلوں جب یحییٰ خان کی اس گانے والی گرل فرینڈ نے پی آئی اے کے اسٹاف کے سامنے ٹوکیو ایئر پورٹ پر میری بے عزتی کی تھی اور مجھے ماں بہن کی گالیاں دی تھیں۔"ٹوکیو میں ہمارے سفیر محترم مطاہر حسین صاحب نے اپنے گھر پر رات کے کھانے کے بعد مجھ سے یہ جملہ کہا تو میں دنگ رہ گیا۔
"مطاہر حسین صاحب کا تعلق بنگال سے تھا۔ بے انتہا نستعلیق اور شائستہ انسان تھے۔ ان کی ساخت بے داغ تھی اور شہرت دفتر ِخارجہ کے لائق ترین افسروں میں سے ایک کی تھی۔ میں ان کا خاص طور سے مداح اس لئے بھی تھا کہ وہ انگریزی زبان میں انشا پردازی کے ماہر تھے اور ان کی رپورٹیں میرے لئے علم کی خوشہ چینی کا وسیلہ ہوا کرتی تھیں۔ تعصب ان میں نام کو بھی نہیں تھا۔ اور ممکن ہے کہ اس میں اس حقیقت کو دخل رہا ہو کہ ان کی بیگم انگریز تھیں جو اس وقت وہاں کھانے کی میز پر اپنے شوہرکی بات کی تصدیق کررہی تھیں کہ وہ میڈم نورجہاں کے حسن ِسلوک کی عینی شاہد بھی تھیں۔ واقعہ یوں تھا کہ بلبل ِ پاکستان میڈم نور جہاں کچھ دن پہلے تفریحی دورے پر جاپان تشریف لے گئی تھیں۔ اس وقت ان کا مقام غیر سرکاری طور پر پاکستان کی خاتونِ اول کا تھا۔ (جاری ہے)