لاک ڈاؤن کے سبب گزشتہ چار دن سے گھر پر ہوں۔ تواتر سے اسکرینوں کو دیکھنا مجبوری ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو جس میں وزرائے اعلیٰ، گورنر، وزرائے اعظم، صدور، وزیر، مشیر شامل ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ لائے بغیر، سوکھے چہروں سے عوام سے اپیل کرتے نظر آرہے ہیں کہ خدارا، اپنے گھرو ں سے نہ نکلیں۔ دوست احباب سے دور رہیں۔ ساتھ میں جو ٹِکر چل رہے ہیں، اُن میں عوام کو احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں کہ ہر گھنٹے بعد 20سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ جس چیز کو ہاتھ لگائیں حتیٰ کہ موبائل فون، اُسے بھی صاف کرتے رہیں۔ گھروں میں اسپرے کریں۔ اگرچہ ہر ایسی تدابیر بتائی جا رہی ہیں کہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے 70 سے80 فیصد عوام اس پر عمل ہی نہیں کرسکتے۔ ابھی دو دن قبل ہی ورلڈ واٹر ڈے کے موقع پر اقوام ِ متحدہ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں پاکستان کو پانچ تعلیم اور صحت اور روزگار کے اعتبار سے پسماندہ ترین ممالک میں بتایا گیا ہے۔ دیگر چار ملک افغانستان، نائیجیریا، یمن اور یوگنڈا بتائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ یعنی 22 کروڑ عوام میں کم و بیش 9 کروڑ عوام وہ ہیں جو اپنے محلوں، چوراہوں پر لگے نلکوں یا مختلف پائپ لائنوں سے آتے گدلا پانی پینے اور استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر پانچ میں سے دو فرد کو ٹوائلٹ کی سہولت حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق میسر نہیں۔ یعنی 22 کروڑ میں سے دس کروڑاُس سہولت سے محروم ہیں جو بنیادی انسانی اور صحت کے اصول کے خلاف ہے۔
تعلیم کے بارے میں بھی سنتے جائیں۔۔۔ کہ 4 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول ہی نہیں جاتے۔ جن میں ہمارے صوبہ سندھ کے 2 کروڑ20 لاکھ بچے شامل ہیں۔ اسکرینوں پر آنے والی ان قیادت سے مجھ سمیت ہمارے ٹی وی اینکر اپنی اخلاقیات اور موجودہ حالا ت کی سنگینی کے سبب یہ سوال کرنے کی جرأت نہیں پاتے کہ کیاآپ جو قوم کو رشد و ہدایات دے رہے ہیں تو کم از کم یہ بتا دیں کہ یہ جو 35سال تک وفاق اور صوبوں میں حکومتیں آتی رہیں، اربوں ڈالر کے قرضے جو آپ لیتے رہے، اور پھر اربوں روپے صحت اور تعلیم کے نام پر اپنے بجٹوں میں دکھاتے رہے۔۔۔ تو ان چار دہائیوں میں یہ بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ 40 فیصد عوام کو آپ صاف پانی مہیا کرسکتے۔ 35 فیصدکو اسکول بھیج پاتے۔ جو اس کاحق ہے۔ ایسے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اوپر والا ہے جس نے اس مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کے عوام کو اس ہولناک وائرس سے محفوظ رکھا ہے۔ میرے منہ میں خاک، خدا نہ کرے، اگر احتیاطی تدابیر، حکومتی اقدامات کو دیکھا جائے تو وطن ِ عزیز میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں پشتے لگ جاتے۔ اور یہ بھی یقین ہے کہ انہیں اٹھانے میں بھی ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں ناکام رہتیں۔
عوام سے تواتر سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں۔ خود وزیر اعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن اس لئے نہیں ہوسکتا کہ 25 فیصد آبادی جن میں ٹھیلے والے، رکشے والے، پرچون کی دکان لگانے والے، دیہاڑی والے رہتے ہیں، جن کا شدید بیماری میں بھی دوسرے نہیں تو تیسرے، چوتھے دن اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے باہر نکلنا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ حیرت اس پر ہوئی کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان 25 فیصدغربت سے نیچے کی لکیر پہ رہنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد اگلے 24 گھنٹے بعد انتہائی فراخ دلی سے اعلان کررہے ہیں کہ 70 لاکھ روزانہ یعنی دیہاڑی والوں کو حکومت تین ہزار روپے مہینے کا ریلیف دے گی۔ یعنی سو روپے روز۔ بدقسمتی سے ہمارے غریب محنت کش گھرانوں میں 5 اور7سے کم بچے نہیں ہوتے۔ حساب خود لگالیں۔ کیا دس روپے فی فرد، دو کیا، ایک وقت بھی پیٹ بھر سکتا ہے؟ ہاں، اس بات کا ضرور اعتراف کرنا چاہئے کہ خوش قسمتی سے وطن ِ عزیز میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو خوف ِ خدااور خلقِ خدا سے درد رکھنے کے سبب انتہائی فراخ دلی سے پاس پڑوس ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے اداروں کو لاکھوں، کروڑوں روپے کی امداد دیتے ہیں کہ جن کے سبب آج ہماری سڑکوں پر بھوک سے سسکتے، مرتے لوگ نظر نہیں آتے۔۔۔
یہ جو میں نے ذرا تفصیل سے عوام کی حالت ِ زار کا نقشہ کھینچا۔۔۔ جس میں حکومت پر تنقید کا پہلو بھی تھا، تو اس کا سبب یہ تھاکہ کاش ہمارے حکمران اس صدی کی سب سے بڑی ناگہانی آفت سے سبق لیتے ہوئے حقیقی معنوں میں اپنے فرائض انجام دیں۔ جن سے وہ ووٹ لے کر عالی شان، ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میں بیٹھتے ہیں۔ زرداریوں اور شریفوں کو تو جانے دیں۔۔۔ کہ وہ اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں اور آئندہ بھی بھگتیں گے۔ مگر تبدیلی لانے والے کپتان وزیر اعظم سے ضرور یہ امید تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کم از کم ایسی بنیادی تبدیلی ضرور لائیں گے کہ جو نظر بھی آئے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کراچی میں ہزار گز کے بنگلے میں رہتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ تھے۔ حکومتی منشوراور وعدے کے مطابق کیا انہیں اُس ایوان ِ صدرمیں رہنا تھا جو ہزاروں گز پر مشتمل ہے؟ جہاں ملازمین کی تعداد 500 کے قریب ہے اور جس کا ماہانہ خرچ 7 کروڑ روپے ہے۔۔۔
کپتان کے بارے میں بھی سنا ہے۔ کہ اب وہ اپنے وزیر اعظم ہاؤس میں لوٹ آئے ہیں۔ چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ بھی ان ہی ایوانوں میں رہ رہے ہیں جس میں ماضی کے حکمراں رہتے تھے۔ ہر گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کا خرچ 5کروڑ مہینے سے کم نہیں۔
اسکرینوں پر بلند و بانگ دعوے کر کے مگر مچھ کے آنسو بہانے سے بہتر کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ جو جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے اسپتالوں اور لیبر کالونیوں میں قرنطینہ مراکز بنائے جارہے ہیں۔۔۔ تو کیا ایوان ِ صدر، وزیر اعظم ہاؤس، گورنراور وزرائے اعلیٰ ہاؤسوں کو ان سنٹروں میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا؟ ٖٓافسوس، کہ اس انسانی تاریخ کی اس ناگہا نی آفت میں بھی سیاست کی جارہی ہے۔ پہلے ہی سے غربت، افلاس اور روزگار سے محروم عوام کے زخموں پر اس طرح کے بیان دے کر نمک چھڑکا جارہا ہے۔۔۔ غریب، محنت کش پاکستانیوں کی ہمت کو داد دیجئے کہ اُن میں کتنا صبرو تحمل ہے۔ تو پھر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ ورنہ انہیں تو شرم آتی نہیں۔