ایک مستند خبر کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اور کوویڈ 19 کے مشترکہ بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں معیشتیں تباہ ہورہی ہیں اور انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کوویڈ وباء سے اب تک 10 لاکھ زندگیاں ختم ہوچکی ہیں جبکہ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں میں 28کھرب ڈالروں کے نقصانات کااندیشہ ہے۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بھی انسان اور اُن کے وسائل بری طرح متاثرہورہے ہیں۔ خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے اپنے بلاگ میں کہاہے کہ دونوں بحرانوں سے عالمی سطح پر ناصرف غریب ممالک و طبقات بلکہ امیرممالک اور اہل ثروت افراد کو بھی مسائل درپیش ہیں۔ اس پریشان کن صورت حال کے بیان کے بعد اسی رپورٹ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ گرین پبلک سرمایہ کاری میں اضافہ سے دونوں کے مسائل میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ اِس خبرکااگرتجزیہ کیا جائے تو دونوں وجوہات انسانی دائرہ کار سے بالا ہیں اور یہ قدرت کے دائرہ کارمیں آتی ہیں دونوں کا تعلق ناتو کسی سپرپاورسے ہے، نہ یہ کسی عالمی تنازعہ کا شاخسانہ ہے اور نہ کسی فرد یا قوم کی غلطی کا نیتجہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ یہ آفت لوگوں نے لوگوں پر مسلط نہیں کی اس کا ہدف بھی لوگ نہیں ہوسکتے۔ اب یہ آئی ایم ایف کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ وہ انسانیت کے اس مشترکہ یا اجتماعی دشمن کا مقابلہ کس طرح کرے گا کیونکہ آئی ایم ایف کا اب تک کا تجربہ بڑے لوگوں کیلئے چھوٹی دنیا کے خلاف جنگ لڑنے تک ہی محدود رہا ہے اُسے انسانیت کے اجتماعی دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اِس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اب یہ جنگ اکیلئے آئی ایم ایف نے نہیں لڑنی۔ اس لئے کہ آئی ایم ایف اس قابل ہی نہیں کہ وہ اپنی استحصالی مالیاتی منصوبہ بندیوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے انسانیت کے لئے کہ جنگ لڑسکے۔ لوگوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتاہے لیکن قدرت کونہیں۔ لوگوں کی نظروں سے تو آئی ایم ایف کی چالبازیاں اوجھل رہ سکتی ہیں لیکن قدرت علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ قوموں اور ملکوں کی چھوٹی بڑی حدوو ہوتی ہیں لیکن اگر آئی ایم ایف چاہے بھی تو اسکی قدرت کے خلاف جنگ نہیں کرسکتی جس کی سلطنت سے باہر نکلاہی نہیں جاسکتا۔ آئی ایم ایف کا تجربہ حدود قیود کے اندر رہنے والے ملکوں قوموں اور لوگوں سے برسرپیکار رہنے کا ہے۔ آئی ایم ایف کی اوقات کھل کر سامنے آگئی ہے ہمارے ایک دوست کے نزدیک گریڈ بیس کی اُس وقت تک بڑی شان تھی جب تک انھیں خود گریڈ بیس نہیں ملاتھا۔ گریڈ بیس پرچڑھنے کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے گریڈ بیس پر ایک طویل نظم لکھی جس کا ایک شعر نظر قارئین کرتاہوں۔ ؎
منصب کو تیرے اب نہ کرے گا کوئی سلام
تُو ہوچکا ہے بے سروساماں گریڈ بیس
آئی ایم ایف بھی اب بے سروماں ہوچکاہے صرف آئی ایم ایف ہی نہیں بلکہ اس نوعیت کے دیگر عالمی مالیاتی ادارے جیسے ورلڈ بینک، ا یشیائی ترقیاتی بینک، یو این ڈی پی، ڈبلیوایچ او وغیرہ سب ہی آہستہ آہستہ اپنی اوقات میں آجائیں گے جب دنیا کے سارے لوگوں کا مفاد ایک ہوجائے گا جب سارے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ اور ایک ملک دوسرے ملک کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی بجائے اپنے مشترکہ اور اجتماعی دشمنوں کے خلاف متحد ہوجائیں گے۔ جب تک لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کے تحت ایک دوسرے کے لئے اندھے رہیں گے ہمیشہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔ صرف اتفاق ہی روشنی کی کرن ہوتی ہے صرف باہمی اتحاد ویگانگت ہی مایوسیوں کو امید میں بدل سکتے ہیں۔ جس ملک کی شہرت کو ساری دنیا کے لوگ انسانیت کی معراج سمجھتے تھے۔ اُس عظیم ملک کے ہارنے والے صدر نے ا س ملک کے نظام اُس کی تہذیب اُس سے وابستہ انسانی حقوق کی پاسداری، اس کے اندر دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہر کسی کے لئے مساوی مواقعوں کی ضمانت، یعنی سب کچھ خاک میں ملادیا ہے۔ تہذیب وتمدن کے پُر فریب پردے ہٹ گئے ہیں بادل چھٹ چکے ہیں اور مطلع صاف صاف نظر آنے لگا ہے۔ ظاہر ہے جب بینائی لوٹ آئے تو چیزیں واضح نظر آنے لگتی ہیں یہی وہ دھوکہ ہے جس کی دین برحق نے صدیوں پہلے نشاندھی کردی تھی لیکن لوگون کی اندر کی تاریکیوں نے باہر کی روشنی دیکھنے سے محروم رکھا ہوا تھا بہت سارے لوگ اِسی طرح اب بھی محروم ہیں۔
جب دونوں آفتیں آدمی کی پیدا کردہ نہیں ہیں اور پوری آدمیت نے ان کا مقابلہ کرنا ہے تو کیسے کیا جائے؟ انفرادی سطح پرلوگ بھی اور ملک بھی اپنی دانست وسائل اور حالات کے مطابق اس صورت حال سے نبردآزماہونے کی کوشیش کررہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی چونکہ آپس کی نہیں ہے اسلئے ان اقدامات کو اٹھایا جارہاہے اور ایسے مزید اقدامات اٹھانے پر غور کیا جارہاہے جن کے تحت اِس دوگانہ قدرتی آفت کے مضمرات اور اثرات کو کم کیا جاسکے۔ مثلاً کرونا کی وبا سے نبٹنے کے لئے ویکسین تیار کی جائے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے آگے زیادہ سے زیادہ درخت اور سبزہ اُگاکر انکی ممکنہ تباہیوں کے آگے بند باندھاجاسکے۔ اس سے زیادہ کچھ کیابھی نہیں جاسکتا کیوں؟ اِسلئے کہ آدمی ایک دوسرے سے تو لڑسکتاہے لیکن قدرت سے نہیں۔ قدرت کا مالک قادر کہلاتاہے۔ مسلمان کے نزدیک وہ قادر مطلق غائب بھی ہے اور لاشریک بھی۔ اُسکے کے ساتھ کوئی لڑ نہیں سکتا۔ اپنے احکامات کے سلسلے میں وہ اٹل ہے وہ ڈھیل تو دیتاہے لیکن ڈیل نہیں کرتا اُس سے ڈھیل لینے والا بھی راندہ درگاہ ہوکر ابلیس لعین بن جاتاہے۔ جب کسی سے لڑا نہجاسکے تو پھر اُس سے مانگا جاتا ہے اُس سے مانگنے کے لئے عاجزی اور انکساری کی ضرورت ہوتی ہے۔ تکبر او ر نخوت کی نہیں۔