Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hamara Almiya

Hamara Almiya

ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اچھے سے بُرے ہوئے ہیں ہماری موجودہ نسل کو قطعی علم نہیں ہے کہ بحیثیت ایک ملک اور قوم ہماری ابتداء انتہائی مستحکم بنیادوں پر ہوئی تھی۔ وسائل کی انتہا ئی کمی اور پہاڑ جیسی مشکلات کے باوجود ہماری ابتدا نہایت مستحکم بنیادوں پر ہوئی تھی۔ جس وقت ہندوستان میں جواہر لال نہرو جیسا زیرک، چالاک اور مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا لیکن توہم پرستی کا مارا ہوا ہندو کسی شُبھ گھڑی کے انتظار میں وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کا منتظر تھا، اس سے چند روز پہلے پاکستان کا ہونے والا گورنر جنرل محمد علی جناح ببانگ دہل اعلا ن کر چکا تھا کہ مملکت پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگی، جس میں شہریت کے اعتبار سے سب برابر ہونگے۔

14اگست کی تقریبات میں قائد اعظم کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح پیش پیش تھیں۔ جو اس بات کا واضع اعلان تھا کہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ رہی گی، جسے آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو ملک اور قوم کیلئے استعمال میں لانے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان ریاست اپنی تمام تر انگریزی دانی اور انگریزوں کی سرپرستی کے باوجود اپنے ابتدائی ایام میں ایسا کوئی تاثر دینے سے قاصر رہی۔ سیکولرزم کا نعرہ لگانے کے باوجود قاصر رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سروجنی نائیڈو یہ کہنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ "اگر کانگریس میں ایک جناح ہوتا اور مسلم لیگ میں سو نہرو ہوتے تو پاکستان کبھی نا بنتا"

میں نے آج کا موضوع کیوں چنا ہے؟ اس لئے کہ گزشتہ ہفتہ گزرنے والے 16دسمبر کا دن مجھے یاد آگیا ہے۔ میری ما ں بظاہر کوئی سند یافتہ پڑھی لکھی خاتون نہیں تھی لیکن 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد ان کے منہ سے نکلے ہوئے دوجملے آج بھی یاد ہیں۔ میری ماں کبھی مشرقی پاکستان نہیں گئی تھی لیکن اس دن اس نے کہا مجھ سے استفساریہ لہجے میں کہا تھا "اب ہم صرف پشاور سے کراچی تک ہی رہ گئے ہیں نا؟ " دوسرا جملہ جو 16 دسمبر 1971کی رات کے وقت ان کے منہ سے نکلا وہ تھا " آج قبر میں قائد اعظم کا دل پھٹ گیا ہوگا " یہ د ونو ں جملے دراصل ان جیسی بے شمار مائوں بہنوں، دادی دادیوں اور بے بس اور لاچار بزرگ خواتین وحضرات کے احساسات کے ترجمان تھے، جنہوں نے پاکستان کو اپنے سامنے پیدا ہوتے دیکھا تھا اور پھر صر ف پچیس سال کے قلیل عرصہ میں اُسے ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا مجھ وہ وقت بھی یاد ہے جب لاہور کے ناصر باغ میں 1969 کے ایک دن میں تقریبا ً سو گز کے فاصلے پر شیخ مجیب الرحمن کی تقریرسن رہا تھا جس میں وہ کہہ رہا تھا " بنگالی کستی میں پیدا ہوتا اور کستی میں مرجاتاہے۔ کیا وہ نیوی میں بھی نہیں جاسکتا؟ " ضروری نہیں ہے کہ یہ ساری باتیں سچی ہوں کیونکہ سارے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے موجودہ ہندوستانی وزیراعظم ڈھاکہ میں سرعام فرماچکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں اہم ترین کردار بھارت کا تھا جسکے لئے بنگلہ دیش کو بھارت کا شکر گزار رہنا چاہئے۔

شیخ مجیب الرحمن کے اُس وقت کے سارے مطالبے کم وبیش اٹھارویں ترمیم کے ذریعے باقی ماندہ پاکستان میں لاگو کئے جاچکے ہیں جس کے تحت پاکستان کو نوچ نوچ کھاجانے والے لوگ بھی اسمبلی میں کھڑے ہوکر بغیر کسی شرم وحیا اور ہچکچاہٹ کے علیحدگی کی دھمکیاں دینے لگے ہیں۔ پاکستان کے المیہ کو سمجھنے کے لئے اپنے گربیانوں میں جھانکنا ہم سے سب کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بات ہورہی تھی ہماری ابتدائی اچھائیوں کی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی میں ٹرام چلا کرتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پوپھٹتے ہی کراچی والوں کے علاوہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے لو گ صبح سویرے سائیٹ انڈسٹریل ایریا کا رخ کرتے تھے او ر اس جانب جاتے ہوئے سر ہی سر نظر آتے تھے۔ نیتجہ؟ نیتجہ یہ کہ اس وقت پاکستان کی برآمدات خطے کے دیگر تمام ممالک بشمول تھائی لینڈ، ملائشیاء، سنگاپور، ہانگ گانگ، برما، کمیوڈیااور انڈونشیا کی مجموعی بر آمدات سے زیادہ ہوگی تھیں۔

جب پاکستان میں 22 منزلہ حبیب بینک پلازہ کراچی میں بنا تھا تو وہ ٹوکیو سمیت خطے کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ ہوٹلوں کی پہلی انٹر نیشنل چین انٹر کانٹی نیٹنل سب سے پہلے کراچی میں آئی تھی۔ پی آئی اے اُس وقت دنیا کی بہترین ائر لائین تھی جس میں صدر امیریکہ بھی سفر کرتا تھا۔ کراچی ائیرپورٹ اُس وقت کا ایشیا میں مصروف ترین ائیر پورٹ تھا۔ کراچی کی رونقیں اس وقت پور ے خطے کی لئے قابل رشک تھیں۔ پھر لمبی لمبی زبا نین، سرے عام بھائیوں کا گوشت کھانے کی لذتیں، ایکدوسرے کی عزتیں اچھالنے، چوریاں، ڈاکے، بھتے، دوستاں، رشتے ناطے اور بات بات پر دشمنیاں پالنے اور بدلے چکانے سے لیکر دہشت گردی اور طرح طرح بربربتوں کی کون سی قسم تھی جس کا مزہ چکھنے سے پاکستان کی بدنصیب قوم محروم رہ گئی جو پھر کافر کافر کی لہر نے سارے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے ناقابل برداشت بنادیا۔ پھر ہمارا المیہ کیاہے؟

ہمارا دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جرائم پر سزا نہیں ملتی۔ بڑے سے بڑے جرم پر بھی بڑے سے بڑے مجرم کو سزا نہیں ملتی۔ سزا چھوٹے مجرموں کو ملتی ہے بڑی بڑی سزائیں چھوٹے چھوٹے جرائم پر چھوٹے چھوٹے مجرموں کو ملتی ہیں پاکستان میں کسی بڑے مجرم کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی۔ کیوں؟ اس لئے کہ بڑے مجرم کے طرفدار اور ساتھی جو اکثر شریک جرم بھی ہوتیہیں اپنے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ساتھی کو اس طرح بچا کرنکال لیتے ہیں جیسے مکھن سے بال کو نکالا جاتا ہے۔

ہمارا تیسرا المیہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ دنیا کی 3/4 عقل اُن کے پاس ہے اور باقی ایک 1/4 عقل پوری دنیا میں تقسیم ہوئی ہے اس سوچ اور خوش فہمی کے بعد لو گوں سے تحلیل نفسی کی توقع رکھنا سوائے شرمندگی کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ ہماری یہ خوش فہمی انفرادی سطح تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی سطح تک پھیل ہوئی ہے۔ ان المیوں کا علاج کیا ہے؟ ان کا واحد علاج شرمندگی ہے۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں شرمندہ ہونا نہیں آتا۔ کسی بات پربھی شرمندہ ہونا نہیں آتا۔ ہم سے ہر بات کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن شرمندہ ہونے کی نہیں ع

جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب