یہ ایک محاورہ بھی ہے اور سوال بھی۔ اسکا جواب سوال کے اندر ہی پوشیدہ ہے یہ سوال سے زیادہ تشریح ہے۔ سوال بھی جب پھیل جائے تو سوال نہیں رہتا۔ سوال کو سوال ہی رہنا چاہئے۔ عقل بڑ ی کہ بھینس، معمولی سوال نہیں ہے اس سوال نے پوری انسانی زندگی کو اپنے اندر محیط کررکھا ہے۔ طرح طرح کے جھوٹوں او ر ایک سچ کو اپنے اندر محیط رکھا ہوا ہے سار ی محبتوں اور نفرتوں کو یہ سوال اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ سوال اگر غلط ہوجائے تو کوئی جواب صحیح نہیں ہوسکتا سوال اگر صحیح ہو تو جواب دینا بعض اوقات بہت مشکل ہوجاتاہے۔ منیر نیازی کا ایک بہت خوبصورت شعر ہے۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
زندگی سوال وجواب کے مدوجزر میں ہی گزر جاتی ہے پہلے تو سوال سمجھ میں نہیں آتے۔ جب سوال سمجھ میں آنے لگ جاتے ہیں تو جواب سجھائی نہیں دیتے۔ سوال ایک ہوتاہے لیکن جواب کئی ہوتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے سوال کامختلف لوگ کئی طرح کا جواب دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو سوال ڈھیر سارے جوابوں میں اس طرح گم ہوجاتے ہیں جیسے وہ سوال تھے ہیں نہیں۔ ظاہر ہے پہاڑ جتنے سوال کا جواب چیونٹی جتنا تو نہیں ہوسکتا، جتنا بڑا سوال ہوگا اتنا بڑا ہی جواب ہوگا۔ مثلاً سوال اگر سچ سے متعلق ہے تو جواب جھوٹ سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ سوال اگر انسان کے بارے میں ہے تو جواب جانور کے بارے میں نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کسی سوال کا تعلق کردار کے بارے میں ہے تو اس کا جواب گفتار سے نہیں نکالا جاسکتا۔ سوالات کا زندگی کی مضحکہ خیز کشمکشو ں سے بڑا گہرا تعلق ہے ایساتعلق جسکا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سوال و جواب کے اس تعلق کو سمجھے بغیر آدمی زندگی بھر ٹامک ٹوئیوں میں مگن رہتا ہے نہ خود کسی نتیجے پر پہنچ پاتاہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کسی نتیجے پر پہنچنے دیتا ہے۔
گہوارے سے لے کر قبر تک وہ کونسا لمحہ ہے جس میں کوئی سوالنہ اٹھایا جاتاہو؟ سارے رشتوں، ناطوں، تعلیم وتربیت، کھیل کود، بھاگ دوڑ خوشی غمی، صحت وبیماری، جوانی وضعیفی، آگے پیچھے اوپر نیچے، دائیں بائیں اور سوتے جاگتے کوئی لمحہ اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں آدمی اگر سوا ل نہ بھی کررہا ہو تو اُسے جواب کی ضرورت پیش نہ آئے۔
حقیقی زندگی میں آدمی کی طرح طرح کی سوچیں اُسے ہر وقت طرح طرح کے سوالوں سے پریشان کئے رکھتی ہیں جن سے وہ نبرد آزما رہتاہے۔ اُسے ہر لمحہ ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسا فیصلہ جو اُسے لمحہ لمحہ ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہو۔ ذہن اور دماغ کے اندر موجود سوچوں کے چھتے قسم قسم کے گردوغبار میں اٹے پڑے راستوں اور پگڈنڈیوں پرچلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ کبھی ان راستوں میں گم ہوجاتے ہیں کبھی بھڑ جاتے ہیں اور کبھی معجزاتی طور پر کسی نہ کسی طرف لگ جاتے ہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو اللہ نے اپنی لاتعداد مخلوقات میں سے کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کی۔ اسی طاقت قوت اور صلاحیت کے تحت انسان کو اشرف المخلوقا ت کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو نظر نہ آنے کے باوجود بھینس سے بہت بڑی ہوتی ہے اسی طاقت کے بل بوتے پر آدمی کئی کئی بھینسوں کو قابو میں کئے رکھتا ہے۔
عقل اور بھینس کا محاورہ کسی مضحکہ خیز ی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ عقلمندی اور دانش کا اظہار کرتاہے، اسلئے عقل کی بڑائی کو صرف ایک عقلمند ہی سمجھ سکتاہے۔ جبکہ بھینس کی جسامت اپنے حجم کے اعتبار سے بچے بڑے بوڑھے بیوقوف اور عقلمند کو سمجھ بھی آتی ہے اور نظر بھی آتی ہے۔ عقل سو بھیس بدل لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے عقل کے محاورے میں عقل کا موازنہ کسی اور چیز یا جانور سے کرنے کی بجائے بھینس سے کیا گیا ہے جو محاورے کی ساری اور فوری ضروریات پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔
سارے سوال وجواب عقل سے منسوب ہوتے ہیں جبکہ عقل سے عاری بھینس۔ جیسی ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر ہی بھاری بھرکم رہتی ہے نہ صرف آد می کو دودھ کی صورت میں بہترین خوراک دیتی ہے بلکہ گوبر کی صورت میں بہترین کھاد بھی دیتی ہے۔ بھینس سے کسی قسم کا سوال وجواب نہیں کیا جاسکتا لیکن آدمی کی زندگی ہی سوال و جواب سے عبارت ہے۔ آدمی نام ہی جوابدہی کا ہے۔ بچپن میں ماں باپ کو جوا بدہی، اسکول میں استاد کو مسجد میں مولوی کو، دفتر میں افسر کو، کاروبار میں گاہک کو، قبر میں منکر نکیرکو جواب دہ ہونا ہوگا۔
اب آئیے لوگوں کی عقلمندیوں کی طرف عام طور پر جن لوگوں کو دوسرے لوگ ذہین پڑھا لکھا اور عقلمند سمجھتے ہیں اُن کی عقلوں کی معراج یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بقول وہ بے حیا کو خوبصورت اور حسین، دھوکے باز کو عقلمند اور ایماندار کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ہم لوگ زندگی اکژ اوقات ایسے ہی عقلمندوں کے گھیرے اور نر غے میں گذارتے ہیں۔ انہی کے طفیل ہم ایک دوسرے کو ایکدوسرے سے برتر یا ذلیل سمجھتے ہیں۔ عقلوں کے یہی معیار اور زاوئیے ہمیں زندگی بھر اندھا رکھتے ہیں اور نہیں جان پاتے کہ جس ٹہنی کو ہم کاٹ رہے ہیں اُسی پر براجمان بھی ہیں۔ اُسے بالکل بھول جاتے ہیں جو رات کو سوئے ہوئے پرندوں کو درختوں کی شاخوں سے گرنے نہیں دیتا وہ بھلا ہمیں کیسے بھلا سکتاہے؟ جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اُونگھ، جو زندہ ہے اور قائم ہے وہ ہمیں کیسے کسی اورکے رحم وکرم پر چھوڑ سکتا ہے؟ وہ جس نے بھینس بھی بنائی اورہمیں عقل بھی دی وہ ہمیں کیوں بے سہارا کرے گا؟ عقل اور بھینس کا فائدہ یا نقصان کیا ہے؟
عقل کاسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ نظر نہیں آتی۔ غالباً اسی وجہ سے لوگ اکثر عقل کے اندھے کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ آنکھوں کے ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ کان رکھتے ہوئے سن نہیں پاتے زبان کے باوجود گونگے ہوتے ہیں، دل رکھتے ہوئے پتھر رہتے ہیں جبکہ بھینس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ نظر آتی ہے چونکہ عقل سے عا ری ہوتی ہے اسلئے دھوکہ نہیں دیتی۔ اپنے آخری تجزئیے میں جنہیں عقل نظر نہیں آتی اور بھینس نظر آتی ہے اُن کے لئے بھینس واقعی عقل سے بڑی ہوتی ہے کیونکہ وہ عقل رکھنے والے ہوکر بھی ایک بھینس جتنا فائدہ بھی کسی کا نہیں کرسکتے۔