تفکر کی باقاعدہ تعریف کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اس لفظ کے معنی اس قدر آسان اور عام ہیں کہ ایک عام خواندہ شخص بھی جانتا ہے کہ تفکر کا مطلب غور وفکرور سوچ بچار کرنا ہے کسی۔ بات یا چیز کے بارے میں جاننے کی کوشش تفکر کہلاتی ہے ب آدمی کچھ جاننے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے اس بارے میں معلومات اکٹھی کرنا پڑتی ہیں۔ ایسی معلومات کو یکجا کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کو تفکر کہا جاسکتاہے۔ خیالات کی آوارگی تفکر نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس کا ماخذ آدمی کے اچھے اور برے جذبات اور اور خواہشات ہوتے ہیں۔
تفکر اپنی نوعیت اور کیفیت کے لحاظ سے معروضی عمل یا فعل ہے۔ تفکر ہر انسان کی ضرورت ہے لیکن ہر شخص اپنی بساط ا کے مطابق تفکر کرتا ہے۔ آدمی کی شعور ی زندگی کا کوئی لمحہ تفکر سے خالی نہیں رہ سکتا، کیونکہ اُسے لمحہ بہ لمحہ کوئی نہ کوئی ارادہ، فیصلہ، عزم، رنج وغم اور خوشی اور امید کے کسی نہکسی مرحلے سے گذرنا ہو تاہے۔
غم سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جدا
کوئی بکھر گیا توکوئی مسکرا دیا
تفکر شعوری زندگی کی بنیاد ی ضرورت ہے اور بنی آدم کا مشترکہ خزانہ ہے جس سے ہر شخص جب چاہے جہاں چاہے مستفید ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد اگر کسی چیز کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے تو وہ تفکر ہے۔ حکم ہے کائنات کی تخلیق کے مختلف پہلوئو ں پر غور کرنے کا، خدااور کائنا ت او ر کائنات اور انسان کے باہمی رشتے پر غور کرنے کا۔" اللہ کا اعلان ہے کہ یہ کائنات بغیر کسی مقصد کے یونہی عبث تخلیق نہیں کی گئی۔ اس پر غور وخوض کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے خالق کی معرفت حاصل ہوسکے۔ کان اور آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم ہے تاکہ ان کے ہوتے ہوئے بہرے اور اندھے پن سے بچا جاسکے۔ آدمی کو عقل اسی لئے دی گئی ہے کہ وہ نظام قدرت کے پیچھے کارفرما دلیلوں کو اپنی عقل سے سمجھے تاکہ تخلیق آدم کے پس منظر سے بھی آگاہ ہوسکے۔
اپنی عقل کے گھٹنوں کے بل پر چل کروحی کے فراہم کردہ پیروں پر دوڑنا شروع کرسکے۔ ذرا ساغور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان نے شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور بھی آج تک جو ترقی کی ہے وہ عقل سے زیادہ وحی کی فراہم کردہ بیساکھیوں کے سہارے چل کرہی کی ہے۔ آدمی کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اس بات کو کھلے بندوں تسلیم کرنے سے ہچکچاتا ہے، گبھراتا، بلکہ شرماتا ہے۔ اپنی عقل پر وحی کی برتری سے انکار کو اپنی بڑائی سمجھتاہے یہی وجہ ہے یہ ہدایت سے محروم ہے۔ بے ہدایتے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں کے باوجود اندھا رہتاہے، کانوں کے ہوتے ہوئے بہرہ اور لمبی زبان کے باوجود گونگا رہتاہے۔ حیران کردینے والی اور خیرہ کن معجزاتی ترقی کے باوجود اگر انسان آج تک انسانوں کے درمیان اللہ کی قائم کردہ مساوات کو ہی نہیں سمجھ سکا تو اپنی اس "سولو فلائٹ"سے اور کیا سمجھ پائے گا؟ جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔"انسان بڑے خسارے میں ہے"۔
جدید فلسفے کے بانی رینے ڈیکارٹ نے شک کو تفکر کی بنیاد بناکر ہر چیز اور ہر بات پر شک کرنا شروع کیا اپنے اردگر د کی ساری باتوں اور چیزوں پر شک کر تے کرتے وہ ایک ایسے نقطے پر پہنچ گیا جہاں اس نے محسوس کیاکہ وہ اپنے شک کرنے کے عمل پر شک نہیں کرسکتا یعنی تفکر کی بنیاد اگر شک ہی ٹھہرتا ہے تو کم ازکم اس بات پر شک نہیں کیا جاسکتا کہ میری سوچ کا یہ عمل بھی مشکوک ہے۔ اس بات کا اس نے یہ نیتجہ نکالاکہ "میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں " یعنی آدمی کا وجود آدمی کی سوچ کا مرہون منت ہے دوسرے لفظوں میں آدمی کی زندگی کی علامت اس کا تفکر ہے۔ تفکر جو ایک مابعدالطبیعاتی عمل ہے اس سے طبعی اشیاکیسے برآمد ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب نہ ڈیکارٹ کے پاس تھا اور نہ ہی کوئی اور دے پایا۔
ڈیکارٹ کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ آدمی کا وجود اُ سکے تفکر کے تابع ہے اس کے رد میں پیدا ہونے والے فلسفہ وجود یت نے اُس کی دھجیاں بکھیردیں او ریہ نتیجہ نکالا کہ "وجود ذات سے پہلے ہے " یعنی آدمی کی ذات کی ساری خوبیاں اور خامیاں اُس کے وجود کے باعث ہوتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ آدمی کا تفکر آدمی کے وجود کے تابع ہوتا ہے۔ آدمی کا وجود آدمی کے تفکر کے تابع نہیں ہوتا۔ اب تو یہ بات بلاکسی تردید کے ثابت ہوچکی ہے کہ آدمی سے متعلق ہرچیز کا تعلق اس کے وجود سے وابستہ ہے جب تک آدمی زندہ رہتا ہے تب تک اسکے لئے ہر چیز کچھ نہ کچھ معنی رکھتی ہے تبھی توکہتے ہیں ــ"جان ہے تو جہان ہے" مابعد الطبعیاتی اور طبیعاتی دونوں حقیقتیں آدمی کے لئے اسکے وجود سے منسلک ہوتی ہیں۔
کائنات کی ہرچیز زندہ کے لئے ہے مردہ کیلئے نہیں۔ جس نے کائنات بنائی ہے وہ زندہ بھی اور قائم بھی۔ کیوں؟ زندگی بھی اسی نے پید ا کی اور موت بھی وہی دیتا ہے اس خالق کائنات کے لئے یہ بالکل ممکن ہے کہ اپنی انگنت مخلوقات خلق کرنے سے جن میں زندگی اور موت دونوں شامل ہیں، کوئی ایسی مخلوق بھی ہو جو، زندگی اور موت سے پہلے خلق کی گئی اور جو زندگی اور موت دونوں کی تخلیق کی گواہ ہو۔ جس طرح سانئس او رٹیکنالوجی ایک تیز طر ار اور کامیاب کھوجی کی طر ح کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے ہٹا رہی ہے۔ عین ممکن ہے آئندہ سائنس زندگی سے پہلے کی تہوں کو بھی دریافت کرلے اور موت کے بعد کی بلندیوں تک بھی رسائی حاصل کرلے۔ اللہ نے انسان کو غور وخوض کا حکم عبث نہیں دیا۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفٰے سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردُوں
زندگی اور موت زمانے سے باہر نہیں نکل سکتے اب یہ آدمی پر منحصر ہے کہ وہ تفکر کو اللہ کے احکامات کے تابع رکھتاہے اور شک او ر شبے سے آزاد ہوجاتاہے یا شک وشبے کی کربناک گرفت میں رہتے ہوئے تفکر کو اپنی نفرتوں محبتوں، خوشیوں اور غموں، کامیابیوں اور ناکامیوں، حملوں اور پسپائیوں کے رنگا رنگ زاویوں کے تابع رکھتا ہے۔ جب آدمی کا تفکر اپنی ذات کی گوناگوں کمزوریوں کے تابع ہوتو وہ تفکر مضحکہ خیز ہوجاتاہے کیونکہ ذاتیں بڑی چھوٹی، اچھی بُری، نیک وبد پاکیزہ اور نجس، بیماروتندرست، چاق وچوبند اور کاہل وسست کسی بھی طر ح کی ہوسکتی ہیں۔
ظالم ورحم دل، دوستانہ اور معاندانہ، عالمانہ اور جاہلانا، منافقانہ، مخلصانہ اور حاسدانہ یا ہمدردانہ کسی بھی فطرت کی حامل ہوسکتی ہیں، ظاہر ہے ایسی خاصتیوں کے ز یر تسلط تفکر بھی ایسی ہی کمزور یوں کا حامل ہوگا۔ ہمیں جو کتاب اللہ نے دی ہے وہ ہر قسم کے شک وشبے سے بلند تر ہے ہمارا تفکر اگر اللہ کے احکامات کے تابع ہو تو کوئی میدان ایسا نہیں جسے مسلمان فتح نہ کرسکے۔