اطمینان ہر شخص کی ضرورت بھی ہے اور خواہش بھی۔ اس میں کسی قسم کی، لسانی، علاقائی، قبائلی یا نیک و بد کی تخصیص ممکن نہیں۔ اطمینان کاالٹ بدسکونی، بے چینی اور تذبذب ہو تاہے۔ آد می جو کچھ بھی کرتاہے اطمینا ن کے لئے کر تا ہے زندگی بھر کی تگ و دو کا نچور اطمینان کا حصول ہی ہوتاہے وہ اطمینان جو نظر نہیں آتا جسے صرف محسوس کیا جاسکتاہے جسے ماپنے کا پیمانہ ہر شخص کا اپناا ہو تاہے وہ اطمینان جسے لیا یا دیا نہیں جاسکتا، وہ اطمینان جس کی خردیدوفروخت ممکن نہیں۔ یعنی اطمینان کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ اطمینان ایک ایسی دولت ہے کہ نہ ہو تو کسی ارب پتی کے پاس بھی نہیں ہوتااور ہو ہو تو ایک غریب و نادار کے پاس بھی لبالب ہوسکتاہے۔ اطمینان ایک اندرونی کیفیت ہے جبکہ آرام ایک بیرونی آسائش ہے اسلئے دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر آرام دہ زندگیا ں غیر مطمین بھی ہوتی ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتاہے کہ تین چیزیں زندگی میں اطمینان کا باعث بنتی ہیں۔ دولت وشہرت، عہدہ اور منصب اور اولاد۔ آدمی زندگی بھر جو کچھ بھی کرتاہے بنیادی طور پر انہی مقاصد کے حصول کے لئے کرتاہے۔ نام ونمود کے لے یہ تینوں بہترین ذرائع ہیں۔ مرنا سبھی نے ہوتاہے لیکن کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا اس کے باوجود یہ خواہش ہر آدمی کے دل میں رہتی ہے کے اس کا نام موت کے بعد بھی رہے۔ ایک عام ذہن کے مطابق بعد از موت نام نمود کے لئے بھی دولت وشہرت، عہدہ اورمنصب اور اولاد کا ہونا ضروری ہے آج بھی لوگ باپ دادا کے کارناموں پر فخر کرنا باعث تسکین سمجھتے ہیں۔ ایک نپولین ہی تھا جو خود کو ہی اپنا شجرہ نسب بھی سمجھتا تھا۔ اسلئے کہ اسکا مرتبہ مقام اور دبدبہ اسے وراثت میں نہیں ملا تھا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ سارے امتحانوں میں کامیاب ہوگئے تو نبوت اور رسا لت کے بعد اللہ نے انھیں لوگوں کا امام بنانے کا عندیہ دیا تو قرآن کے مطا بق حضرت ابرہیم ؑ نے عرض کیا کہ کیا یہ عہدہ میری ذریت میں بھی ہوگا تو اللہ نے فرمایا یہ مقام ومرتبہ ظالموں کے لئے نہیں۔ یہ مراتب صرف اللہ کی دین ہے جو نسل ابراہیمی میں رکھدئیے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہر نماز میں آل ابراہیم اور آل محمد پر درود بھیجتا ہے اسلئے کہ یہاں کجی اور بھٹکنے کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی۔ کفارلات غزا اور منات کے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر پجاری تھے، پاکیزگی اور طہارت انھیں چھوکر بھی نہیں گذری تھی جبکہ نبیؐ پاک کی بعثت ہی کتاب اللہ کے ذریعے علم وحکمت کی تعلیم اور نفسوں کو پاکیزہ کرنے کے لئے تھی اوراب بھی ہے۔
کیا جن تین چیزوں سے آدمی اطمینان حاصل کرنا چاہتاہے وہ پائیدار اور قابل بھروسہ نہیں۔ اسلئے کہ دولت خرچ کرنے سے گھٹ جاتی ہے جب دولت آتی ہے تو دولتمند کو اسکی حفاظت کرنا پڑتی ہے کیونکہ اس کے چھن جانے کا دھڑکا ہروقت لگارہتاہے دولت نہ تو اطمینان دے سکتی ہے نہ صحت اورنہ ہی عزت۔ اگر دولت عزت دے سکتی تو سارے بدمعاش، جواری، رشوت خور، دین اور وطن فروش عزت دار ہوتے۔ اگر دولت صحت دے سکتی تو کوئی امیرشخص بیمارنہ ہوتا۔ پھر دولت سب کچھ خریدنے کے باوجود چند چیزیں نہیں خریدسکتی۔ مثلاً دولت سے محبت نہیں خریدی جاسکتی، عزت وقار اور تمکنت نہیں خریدد ی جاسکتی، بزرگی متانت اور بردباری نہیں خریدی جاسکتی، خوش خلقی مخلصی نہیں خریدی جاسکتی اور سب سے بڑھ کر علم وہنر نہیں خریدا جاسکتا۔ اس کے باوجود مسدس حالی میں افلاطون کے حوالے سے آدمی کے لئے جن تین ضروری باتو ں کا ذکر کیا گیا ان میں دولت تیسرے نمبر پر رکھی گئی اس سوال کے جواب میں کہ آدمی کے پاس کیا ہونا چاہئے تو جواب دیاگیا کہ علم ہونا چاہئے۔ پوچھا گیا اگر علم نہ ہو کیا ہونا چاہے جواب دیا گیا پھر ہنر ہونا چاہئے۔ سوال تھا کہ اگر ہنر بھی نہ ہو تو جواب ملا پھر دولت ہونی چاہے۔ پھر سوال تھا کہ اگر دولت بھی نا ہوتو مسدس حالی میں اس کاجواب کچھ اس طرح سے تھا
ہے اس پر بجلی کا گرنا ہی بہتر
وہ ننگ بشر تاکہ ذلت سے چھوٹے
خلائق سب اس کی نحوست سے چھوٹے
بزبان حالی افلاطون کی اس نصیحت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دولت کوئی پائیدار چیز ہے دولت بالکل بھی پائیدار نہیں ہوتی۔ کل کا ارب پتی آج پائی پائی کا محتاج اور آج کا محتاج کل کا ارب پتی ہوسکتاہے۔
یہی حال عہدے اورمنصب کا بھی ہے۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا تھا "اگریہ کرسی مضبوط ہوتی تو آج تجھ تک کیسے پہنچتی؟ " کرسی اس قدر مسحورکن ہوتی ہے کہ اُسے کھودینے والا حواس بھی کھودیتاہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتاہے۔ مملکت خداد پاکستان کا اب یہ روز مرہ کا مشاہدہ بن چکاہے کرسی سے جدائی کے بعد منصب دار کو پتہ چلتاہے کہ اسکی اصل حقیقت کیا ہے اس لئے کہ جب وہ کرسی پر براجمان ہوتاہے تو دنیا اسے دیکھتی ہے لیکن جب وہ کرسی سے اتر جاتاہے تو وہ دنیا کو دیکھتاہے۔ دل اوردماغ کے سارے بل نکل جاتے ہیں۔ ساری دنیا کو اپنے اندر سمیٹنے والا بھیڑ میں اکیلا ہو جاتاہے لوگوں کی آنکھوں سے خود کو دیکھنے والا جب اکیلا ہوجاتاہے تو خود کو دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ دولت و شہرت عہدہ ومنصب کے بعد اطمینان کا تیسرا ماخذ اولا د کو سمجھا جاتاہے آدمی اپنا ہر کام اولاد کی بہتری اور مفاد کو مدنظر رکھ کر کرتاہے اولاد کے لئے آدمی کسی قربانی سے درایغ نہیں کرتا۔ والدین اپنے بہن بھائیوں رشتہ داروں اور دوست احباب سے حسدکرتے ہیں لیکن اولاد سے کوئی حسد نہیں کرتا آدمی اپنی اولاد کو اپنے سے بہتر دیکھنا چاہتاہے اپنے ارمانوں کو اولاد میں پورا ہوتے دیکھنا چاہتاہے علی ؑ فرماتے ہیں "لڑکیا ں نیکیاں ہوتی ہیں اور لڑکے نعمتیں، نیکیوں پر ثواب ملتا ہے اور نعمتوں کا حساب لیاجائے گا"۔
ہر ایک ماں کو اپنابیٹا لاکھوں میں ایک ہی لگتاہے خواہ کو زمانے کی نظر میں کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اس وقت بھی اسے وہلاکھوں میں ایک ہی لگتاہے جب وہ اپنی بوڑھی ماں کودر در کی ٹھوکریں کھانے گھر سے نکال رہاہوتاہے جب وہ باپ کو ایدھی ہوم میں جمع کرارہا ہوتاہے، بیمار والدین کے لئے اولاد اکثر کہتی سنی جاتی ہے کہ "دعا کریں اللہ ان کی مشکل آسان کردے" اس صورت حال سے جوبات ثابت ہوتی ہے کہ وہ یہ کہ اولاد بھی اطمینان کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ پھر اطمینان کا ماخذ کیاہے؟ وہ جو فرمایا گیا کہ "اللہ کے ذکر میں دلوں کاسکون اور اطمینان پوشیدہ ہے" وہ بات ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہمیں تو نماز پڑھ کے بھی سکون نہیں ملتا، روزہ رکھ کر بھی بے چینی رہتی ہے اونچی آواز میں تلاوت کرکے بھی گبھرائے رہتے ہیں پھر وہ کونسا اللہ کا ذکر ہے جو ہم نہیں کررہے؟ اللہ کہتاہے "اگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ ان سے محبت کرے، تو ان سے کہہ دو کہ وہ تمہاری اطاعت کریں، اللہ اُن سے محبت کرے گا" یعنی اصل ذکر اطاعت رسولؐ ہے۔ رسول کی نافرمانیاں کرکے اورحضورؐ کو ناراض کرکے اللہ کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔