ہر آدمی عزت چاہتاہے، ذلت اور سوائی کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ اُ س وقت پیدا ہوتاہے جب آدمی باتوں کودل پے لے لیتا ہے۔ آدمی اگر باتوں اورچیزوں کو محسو س کرناچھوڑ دے تو زندگی سکھی ہوجاتی ہے۔ بادشاہی کا مطلب بھی زندگی سکھی کرنا ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ بادشاہت میں آدمی بہت ساری ایسی باتوں کو ترک کردیتا ہے جو زندگی کو دُکھی کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسی بہت ساری باتوں میں ایک بات غیرت بھی ہوتی ہے۔ یہاں ایک نقطے کی وضاحت ضروری ہے بادشاہت سے مراد ہٹو بچو، شان وشوکت اور طمطراق والی باشاہت ہی نہیں بلکہ اس سے مراد وہ شاہانہ روئیے ہیں جن باعث کوئی بھی بادشاہ بن سکتاہے۔ وہ سوچیں، خواہشات اور گمان ہیں جو آدمی کو بادشاہوں کی طرح لاپرواہ اور بے حس بنادیتے ہیں۔ اُن کی بلا سے کوئی مرے یا جئے۔ اُن کی دانست میں لوگوں کو اگرروٹی نہیں ملتی تووہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ کیوں لوگ عزت کے دلدادہ اور ذلت سے متنفررہتے ہیں اورعزت بچانے کیلئے جان کی بازی بھی لگادیتے ہیں۔ کیا عزت کوئی دکھائی دینے والی طبعیاتی چیز ہے؟ اگرعزت نظر ناآنے والی کوئی شئے ہے تو اس کا سودا کیسے ہوتاہے؟ پھر دکھائی نادینے والی شئے لوٹی کس طرح جاتی ہے؟ پھر دکھائی دینے والی چادر اور چار دیواری نا دکھائی دینے والی کون سی عزت کا تحفظ کرتی ہیں؟ کیا کپڑے پہنے والا عزت دار اور ننگا بے عز ت ہوتاہے؟ متمدن اورمہذب دنیا میں سمندروں کے کنارے کنارے ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں دنیابھر کے مانے ہوئے عزت دار اورمہذب لوگ قدرتی حالت میں فخریہ گھومتے پھرتے ہیں۔ پس ثابت ہو اکہ لباس عزت کامعیارنہیں بن سکتا۔
کیا عہدہ اور منصب جسے عرف عام میں کرسی کہا جاتاہے عزت کا باعث بنتی ہے؟ کرسی کو عزت کامنبع سمجھنے والے ہی اُسے ایک مضبو ط سہاراسمجھتے ہیں۔ آج بھی بہت سارے تیس مار خان اپنے تئیں اسی مضبوط کرسی کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے عمل میں مصروف ہیں کرسی چاہے گھر کی ہو، خاندان کی ہو، ادارے کی ہو، تھانے کچہری یا خانقاہ کی ہو مستقل نہیں ہوتی۔ تبھی توعلی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کرسی پربراجمان کسی مغرور اور متکبر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اگر یہ کرسی مضبوط ہوتی توآج تجھ تک کیسے پہنچتی؟ " فرعون اور نمرود اپنے وقتوں میں مضبوط ترین کرسیوں کے مالک تھے۔ ملکہ سبا نے جب اپنے درباریوں سے حضرت سلیمان ؑ کے خط پر رائے مانگی تو انھوں نے کہا کہ فاتح فوجیں جب کہیں قابض ہوجائیں تومفتوحہ علاقوں کے عزت دارذلیل ورسوا ہوجاتے ہیں۔ مطلب؟ مطلب یہ کہ کسی بھی عہدے اور منصب کو عزت کامعیارنہیں بنایا جاسکتا۔
کیا دولت عزت دار بناتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھر کے چور، ڈاکو، سمگلر، دہشت گرد، جواخانوں اور قحبہ خانوں کے مالک، منشات کے بیوپاری اور طرح طرح کے مافیا ز کے کرتے دھرتا سب سے زیاد ہ عزت دار ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کو عزت کا معیار بنانے والوں کی یہ خوش فہمی بے بہا دولت کے حصول کے فوراً بعد دُور ہوجا تی ہے جب اُن پر انکشاف ہوتاہے کہ ان کے اپنے بھی انھیں نہیں بلکہ اُن کی دولت سے پیار کرتے ہیں۔ انھیں اللہ کا یہ فرمان آخر دم تک سمجھ میں نہیں آتا کہ" تمہارے پکے پکے مکانات اور تمہارے بیٹے (یعنی اولاد) تمہارے کسی کام نہ آسکے گی" ایسی دولت کس کام کی جو آدمی کو صحت مند بھی نہ رکھ سکے اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے نا آدمی کچھ کھا سکے اور ناپی سکے۔ ڈھیر سارے اپنوں کے ہوتے ہوئے بدترین تنہائیوں کا شکار رہ رہ کر وحشت ناک موت کا انتظار کرتارہے پتہ نہیں کیوں یہ شعر یاد آگیا۔
سار ا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جوشخص مرگیا
کیا طاقت عزت دلاسکتی ہے؟ کونسی طاقت؟ جسمانی طاقت، توپ وتفنگ کی طاقت، گولہ وبارود کی طاقت یا عددی اکثریت کی طاقت؟ جسمانی طاقت کے حامل بڑے سے بڑے پہلوان بھی اکھاڑوں میں پچھاڑے جاتے ہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور کاتوپ وتفنگ کا ذخیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کے انباربھی کندھوں پر میزائل لے کر پھرنے والوں کے ہاتھوں حال ہی میں افغانستان میں رسوا ہو نے سے نا بچا سکے۔ جنگ بدر میں 313ایمان والوں نے ایک ہزار کفار پر اپنی برتری کالوہا منوا لیا تھا۔ لہذا طاقت عزت نہیں دلا سکتی بلکہ عزت والا ہی سب سے زیادہ طاقت وار ہوتاہے۔
پھر عزت دار کون ہوتاہے؟ عزت دار وہ ہوتاہے جس کی نہ چاہتے ہوئے بھی عزت کی جائے۔ جس کا دشمن بھی اُس کی عزت کرنے پر مجبور ہو۔ عزت کا معیار وہی کچھ ٹھہرایا جاسکتاہے جس چھینا نہ جاسکے، جسے جھٹلایا نا جاسکے، جسے بگاڑا نا جاسکے، جسے گہنایا یا چھپایا نہ جاسکے، جیسے ناخریدا جاسکے اور ناہی مستعار لیا جاسکے، جیسے کسی شاعر کا شعر، کسی مفکر کا نظریہ، کسی ادیب کی تحریر، کسی عظیم انسان کا بول، کسی مجسمہ ساز کا شاہکار اور کسی مصّور کی تصویر صرف اور صرف اُسی سے منسوب ہوسکتی ہے۔ کوئی دوسرا اِن باتوں میں اُس کا شریک نہیں ٹھہرا یا جاسکتا۔ جس طرح بچہ ماں کی تخلیق ہوتاہے۔ اسی طرح تحریر وتقریر اور فن کی نمو بھی آدمی کی تخلیق ہوتی ہے۔ جسے آدمی سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اولاد باپ کے ہوتے ہوئے بھی آخرت کے دن ماں کے نام سے ہی پکاری جائے گی کیونکہ وہ ماں کی تخلیق ہوتی ہے۔
پھر عزت دار کون ہے؟ عزت دار صرف صاحب کردار اور صاحب علم ہی ہوسکتاہے۔ اللہ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ فضیلت صرف تقویٰ پر نافذ ہوگی۔ تقویٰ کوئی کسی سے چھین نہیں سکتا۔ تقویٰ کیونکہ وہ علم اور کردار دونوں کا حامل ہوتاہے تقویٰ اس دنیا کی وہ واحد صفت ہے جو قیامت کے دن تک آدمی سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اسی لئے قرآن کا اعلان ہے کہ عزت صرف اللہ کے لئے ہے، اُس کے رسول کے لئے ہے اور مومینن کے لئے ہے۔ ایسی عزت جسے کا ئنات کا ذرہ ذرہ بلا چون وچراں تسلیم کرتاہے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔
اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے "ہر طرح کی عزت صرف اللہ کے لئے ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے، اور پھر یہ کہ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ حقیقت یہی ہے کہ رب ذوالجلال کے سوا نہ کسی کو کوئی عزت دے سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو ذلیل کر سکتا ہے، نہ کوئی کسی کو رزق دے سکتاہے، نہ چھین سکتا ہے، زندگی اور موت کا کامل اختیا ر بھی اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے، آپ خود غور کریں اگر یہ اختیا ر انسان کو دے دیا جاتا تو کون کسی کو عزت دار رہنے دیتا، ایک انسان دوسرے کو رزق سے محروم کر دیتا۔ آخر کار انسان کو یہ اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے