کون ہے جو کامیاب نہیں ہونا چاہتا؟ اگر کسی بچے سے بھی پوچھا جائے تو بتادیتاہے کہ وہ بڑے ہوکر کیا بننا چاہتاہے؟ اُس کے اِس جواب میں ہی کامیابی کے بارے میں اُس کا خیال اور تعریف پوشیدہ ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو گرتا اور ابھرتا دیکھ کر آگے پیچھے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ ردعمل کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ ردِعمل کے طور پر گزرنے والی زند گی پنگ پانگ کے بال کی مانند ہوتی ہے، ادھر سے ٹھپالگا تو اُدھر چلی گئی اور اُدھر سے ٹھپا لگا تو اِدھر کو اُچھل گئی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ زندگی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ حالات کے جبر کے تحت گزارتے ہیں۔ سب لوگ ایسا نہیں کرتے جو لوگ اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں وہی کامیابی یا نا کامی کا شعور رکھتے ہیں، جولوگ سب کے ساتھ دوڑتے اور سب کے ساتھ رک جاتے ہیں وہ کامیابی اور ناکامی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے ایسے لوگ عموماً خو ش رہتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ اپنے حال میں مست ہوتے ہیں حال میں مست رہنے والا شعور سے عاری ہوتاہے۔ وہ سوال نہیں کرتا۔ ا سلئے کہ اُسے سوال کرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سخت سردی میں ننگ دھڑنگ بچے بھیک مانگتے ہوئے، کھیلتے کودتے نظر آ تے ہیں۔ اپنے حصے کے دس روپے لینے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلے کرتے نظرآتے ہیں۔ اگر انھیں سردی کا احساس ہونے لگے تو وہ سڑک پر ہی ٹھٹھر کر مرجائیں یا انھیں ماردیں جنہوں نے خو د کو اُن کے سامنے ہر طرح سے گرم رکھا ہوا ہوتاہے۔
آج کا دور معلومات کا دور ہے، اُوپر نیچے اور آگے پیچھے سے معلومات چھلک رہی ہیں۔ آدمی کے ناچاہتے ہوئے بھی اُسے طر ح طر ح کی معلومات ہر وقت اوردن رات ملتی رہتی ہیں۔ ہر آدمی کو اُس کی اوقات سے بڑھ کر معلومات مل رہی ہیں۔ معلومات کے اِس بہائو کو اکثر لوگ نادانستہ طور پر علم سمجھ رہے ہیں اور اس وجہ سے اپنے تئیں افلاطون بنے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ معلومات اور علم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج سے کئی برس پہلے میرے ایک دانشمند دوست نے مجھے کہا تھا کہ "اگر تمہیں پتہ چل جائے کہ 1952میں پنجاب میں کتنے ٹیوب ویل لگے تھے تو اِس سے تمہاری معلومات میں تو ضرور اضافہ ہوگا مگر تمہاری کمینگی کو کیا فرق پڑیگا؟ " غالباً یہی وجہ ہے کہ علم مفقود ہے اور کمینگیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لئے ایک طرف چاند پر کمند ڈالنے والا انسان دوسری طرف اب بھی کنویں میں ڈول ڈال رہاہے۔ ایک طر ف آدمی کائنات کے رگ وپے میں گھس رہاہے اور دوسری طرف ایک دوسرے کے اندر گھسنے سے باز نہیں آرہا۔ نہیں جانتا کہ اس کا انجام اسکے آغاز سے بہتر نہیں ہوگا۔
آج کل معلوما ت عامہ کے بین الاقوامی چرخے کامیابی کے اسقدر سوت کاٹ رہے ہیں کہ انھیں دیکھ کر یا پڑھ کر بعض اوقات آدمی سوچتا ہے کہ ناکام ہی رہے تو بہتر ہے، کامیابی سے متعلق نظریات کی بھرمارنے آدمی کو کنفیوز کردیا ہے۔ تذبذب کا شکار کردیاہے۔ ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔ رشتے ناطوں کو توڑ دیا ہے، جو رشتے ناطوں کو توڑنے کے ماہرین ہیں اب خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔ ایک افراتفری کا عالم ہے جس میں کامیابی کے درس دئیے جارہے ہیں۔ نجانے لوگ اس ذراسی با ت کو کیوں خاطر میں نہیں لاتے کہ چوروں کا سردار چور نہیں ہوگا توکیا ہوگا؟ اسلئے جب کامیابی کی بابت بات کی جائے توپہلے ذہن کو اِس بارے میں مطمئن ہونا چاہئے کہ کیسی کامیابی اور کس جمگھٹے میں کامیابی؟ نیکوں کے درمیان کامیابی یا بروں کے درمیان کامیابی؟ عالموں کے درمیان کامیابی یا جاہلوں کے درمیان کامیابی؟ اس کے علاوہ اس نقطے کو بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ خدا کی خدائی میں حکمرانی ابلیس کی ہے اور بہت کم لوگ ہیں جو شیطان کی چیرہ دسیتوں سے محفوظ ہیں۔
ہر آدمی کے لئے کامیابی کا مطلب مختلف ہو تاہے۔ جس طرح ٹالسٹائی نے اپنے شہرہ آفاق ناول کے شروع میں کہہ دیا تھا کہ سارے خوشحال گھرانے ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں لیکن ہر غم زدہ گھر کے غم دوسرے گھر سے مختلف ہو تاہے یعنی غم حقیقی ہو تاہے اور خوشی کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ غم کا فقدان ہی خوشی کا باعث ہو تاہے۔ شاید یہی وجہ ہے آدمی روتے ہوئے پیدا ہو تاہے اور ہنستے ہوئے نہیں جاتا۔ غم کی اس حقیقت سے نجات پانے کے لئے ہی عام آدمی کی اگر اپنی سوچ اورفکر کے مطابق طرح طرح کی کامیابیوں کا تجزیہ کیا جائے تو اُس کا لب لباب یہی ہوگا کہ لوگوں کی اکثریت خوشی کے حصول کوکامیاب زندگی کی علامت سمجھتی ہے۔ کوئی بڑا افسر بننے میں خوشی محسوس کرتاہے، کوئی اکھاڑے میں جیت کی خوشی کو کامیابی سمجھتا ہے، کوئی مریضو ں اور مقدموں میں پھنسے ہوئوں سے بھاری بھرکم فیسوں کی وصولی سے حاصل ہونیوالی خوشی کو کامیابی سمجھتا ہے۔ کوئی اقتدارمیں آنے کو کامیابی سے وابستہ کر تاہے اورکوئی شراب وکباب سے لطف اندوزیوں کو زندگی کی معراج سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے شاید ہی کوئی ہو جو ماں کی خدمت اور بیوی کی غلامی کو کامیابی کا باعث سمجھتاہو۔
دوسری چیز جس سے نجات کو آدمی کامیابی سمجھتا ہے وہ خوف ہے۔ خوف سے ہی محفوظ ہونے کے لئے آدمی دولت وشہرت کے لئے کوشاں رہتاہے۔ کیونکہ دولت اُسے طرح طرح کی پریشانیوں اور خوف سے نجات کا باعث بنتی نظرآتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ دولت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے، اُس کے نزدیک سب سے بڑی سکیورٹی بینک بیلنس ہوتا ہے۔ دولت کے ذریعے اپنی بیٹی کو جب چاہے جہاں چاہے رخصت کرسکتا ہے اور کسی کی بیٹی کو جب چاہے جہاں چاہے کسی اوربات کا لحاظ کئے بغیر اپنے گھر لاسکتاہے۔ نام پدر اور حسن دختر کو ثانوی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو زرو جواہر کی چکا چوند سے مرعوب نہیں ہوتے اور بالکل ہی ناپید اور معدوم ہوگئے ہیں وہ لوگ جو ڈالر اور دینار کو بے عزتی کا باعث سمجھتے ہیں۔ وہ قارون کی دولت اور خدیجہؓ کی دولت کے درمیان فرق سے آگاہ ہوتے ہیں، جس دولت کو عام لوگ سکیورٹی کا منبع سمجھتے ہیں اسی کی حفاظت کے لئے خو د غیر محفوظ ہو کر ہمہ وقت خوف اور رنج وغم کا شکار رہتے ہیں۔ انھیں ہر وقت لٹنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور دولت کے کم ہوجانے کے خوف سے خرچ تک نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اپنی عزت بھی اپنی دولت کی وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دولت کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ کامیابی کے جدید ترین نسخے بھی حصول مقصد کے بعد تک غم اور خوف سے عاری نہیں کرپا تے۔ کامیابی کے سارے اہداف الگ سے اپنے رنج وغم اور خوف کے زاوئیے رکھتے ہیں۔ شاعر کی زبان میں " یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہونگے " غالبا ً یہی وجہ ہے کہ ان نسخوں کے مطابق کامیاب لوگ بے خوابی، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔ اگر اس طرح کی کامیابی اپنی سرشت میں خود کفیل ہوتی تو ان علتوں سے پاک ہوتی۔