خوش فہمی کا ہونا کوئی انہونی با ت نہیں ہے۔ ہر شخص زندگی میں اکثر اوقات نہیں تو بعض اوقات ضرور کسی نا کسی خوش فہمی میں مبتلارہتاہے بعض اوقات لوگ طرح طرح کئی کئی خوش فہمیوں میں مبتلا رہتے ہیں آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے خوش فہمی کا مطلب سمجھ لیا جائے۔ خوش فہمی کے لفظی معنوں کے بجائے عام فہم معنوں کے مطابق بتلانا چاہتاہوں کہ خوش فہمی میں آدمی اپنے آپ کو وہ کچھ سمجھنے لگ جاتاہے جو وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔ خوش فہمی اگر ایک درجے آگے بڑھ جائے تو آدمی یہ بھی چاہنے لگتاہے کہ لوگ بھی اُسے وہی کچھ سمجھیں جو کچھ کہ وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔ خوش فہمی اور غلط فہمی میں کیافرق ہے؟ ان کا بنیاد فرق یہ ہے کہ غلط فہمی میں مبتلا شخص کے اندر کسی نا کسی صورت میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے جبکہ خوش فہمی میں مبتلا شخص اس صلاحیت سے قطعاً محروم رہتاہے۔ آج ہم بہت ساری خوش فہمیوں میں سے تین موٹی موٹی اور بھاری بھرکم خوش فہمیوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن کا اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ ساتھ میں بھی شکار رہتاہوں جن لوگوں کی زندگی کے حالات وواقعات میری زندگی کے حالات وواقعات سے مشابہ رہے ہیں وہ میر ی خوش فہمیوں کو فوراً سمجھ سکیں گے۔
پینتس سال تک افسر شاہی یانوکر شاہی کا ایک کارآمد پرزہ رہنے کے بعد اپنے آگے پیچھے رٹیائر ہونے والے بہت سارے بڑے چھوٹے ساتھیوں کی طرح میں بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ زندگی میں جواتار چڑھائو میں نے دیکھے ہیں ان کے طفیل میں اس بدنصیب قوم کے لوگوں کی اگر چاہوں تو قسمت بدل سکتا ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ افسری کی اُونچی شان والی فصیلوں کے قلعے کے اندر مسلسل پینتس برس تک رہنے سے میرے اندر یہ اعتماد پیدا ہوگیاتھا کہ ریٹائر منٹ کے بعد میں چاہوں تو ایک عظیم دانشور، ایک چھا جانے والا استاد، ایک طلسماتی رہنما، ایک ماہر معیشت، ایک کایا پلٹ دینے والا مشیر، ایک ہر دلعزیز سیاستدان اور ایک چھکے چھڑا دینے والے صحافی سے لیکر ایک پیر فقیر حتیٰ کہ اکیسیویں صدی کا ولی اللہ تک کچھ بھی بن سکتاہوں۔ اپنی اس پہلی خوش فہمی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میں نے ریٹائر منٹ کے فوراً بعد کالم نویسی شروع کردی تھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں "بولو کہ پہچانے جائو" ایک لکھاری لکھ کر بولتا ہے یعنی لکھ کر اپنی پہچان کراتاہے جس موضوع پر بھی آدمی لکھے اپنی اچھی یا بری پہچان کرادیتا ہے جتنے موضو ع بولنے کے لئے ہیں اتنے ہی لکھنے کے لئے بھی ہوتے ہیں جس طرح لوگ اپنی طرح طرح کی بولیا ں بیچتے ہیں، لکھاری اپنی رنگ برنگی تحریر یں سامنے لاتے ہیں جس طرح تقریریں اور بحث مباحثے بکتے ہیں، شورشرابے بکتے ہیں بالکل اسی طر ح ادب بھی بکتا ہے، شا عری بکتی ہے، اخبار بکتے ہیں، خلاصے، نسخے بکتے ہیں تعویز بکتے ہیں۔ دعائیں بکتی ہیں۔۔ تحریر کی ہر شکل بکتی ہے اور سرعام بکتی ہے۔۔ تحریربیچنے والے بھی پہچانے جاتے ہیں اور خریدنے والے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریر اپنی اہمیت کھوچکی ہے جس تحریر کی قیمت لگ جائے وہ اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ تحریر کا کمال ہی اس کی قیمت کا تعین کرتاہے چھوٹے کو بڑا کرنا اور بڑے کو چھوٹا کرنا ہی تحریرکا کمال ہوتاہے۔ رات کو دن ثابت کرنا اوردن کو رات بنادینا بھی تحریر کاکمال ہوتاہے، تحریر محبت کو نفرت میں اور نفرت کو محبت میں بد ل سکتی ہے، تحریر کانٹوں کو پھولوں میں اور پھولوں کو کانٹے بنادیتی ہے، جس طرح پیار کے دو بول زندگی سنواردیتے ہیں اور بے عزتی کے طعنے کوسنے بندے کو مار دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سچی تحریرپار لگادیتی ہے اور جھوٹی تحریر برباد ورسوا کردیتی ہے۔
تحریر کی اس طاقت نے مجھے جس خوش فہمی میں مبتلا کررکھا ہے اس سے میں چاہوں بھی باہر نہیں نکل سکتا کیوں؟ اس لئے کہ اس تحریر کے مقابلے میں میری پینتس سالہ افسری کا سارا طمطراق اور بادشاہی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہر افسرکے اوپر ایک بڑا افسر اور نیچے ایک چھوٹا افسر ہوتاہے۔ نالائق اور بدقماش بڑا افسر بھی چھوٹے افسرکی قسمت کا مالک ہوتاہے اور چاہے تو اسکی زندگی برباد کرسکتاہے۔ میری تیسری خوش فہمی میری وہ گم شدہ پارسائی تھی جو زندگی بھر مجھے یاد نہیں آئی لیکن ریٹائر منٹ کے فوراً میں نے اسے اسی طرح گلے سے لگایا جس طر ح زندگی بھر شیطان کے ساتھ چمٹا رہا میری یہ پارسائی بھی اُسی ابلیس کی عطا کردہ ہے، خدا کی خدائی میں جس کی حکمرانی آج بھی مسلّم ہے ہر طرف شیطانیت کا دور دورہ ہے کوئی رشتہ رشتہ نہیں رہا، نہ ماں رہی ہے اور ناہی باپ باپ، نابچے بچے اور ناہی بڑے بڑے، میں بوڑھا ضرور ہوگیا ہوں لیکن بزرگ نہیں بن سکا کیونکہ ابھی تک بڑھاپے کے باوجود اپنے اللے تللوں میں مگن ہوں۔ میں ممبر سے اپنے مسلمان بھائی کے لئے نفرت، نفاق اور فساد پھیلانے کے بعد نماز کے لئے صفیں درست کرنے کا حکم صادر کرتاہوں۔ رشوتوں، چوریوں اور ڈاکوں کی کمائی سے دس دس دیگوں کے چڑھاوے چڑھا کر اپنی حرام کی آمدن کو پاک کرتاہوں، میں ایک مستحق کو راشن دیکر اپنے جیسے دس حرام خوروں کو لہالہاکر جتلاتاہوں۔
میں ایک بچے کے سر پر دست شفقت پھیر کر بتیسی نکال کر فوٹو اترواتاہوں، میں روزہ اس لئے رکھتاہوں کہ افطاری پر طرح طرح کے کھانے کھا سکوں، میں بہن بھائیوں کا وارثت میں حق مارکر اُن پرچڑھائی کرتاہوں میں غریب رشتہ دار کومنہ نہیں لگاتا، میں اس عمر میں بھی خود لذتی سے باز نہیں آتا۔ میرے بنائے ہوئے فلاحی اداروں کے باعث میری افسری کے چسکے اب بھی ختم نہیں ہورہے۔ علی کرم اللہ وجہہ نے کیا خوف فرمایا تھا "دولت عزت اور شہرت آدمی کو تبدیل نہیں کرتی، اُسے بے نقاب کردیتی ہے" یہ جانتے ہوئے کہ "جو منصف ہے وہ گواہ بھی ہے " پھر بھی میں سارے فیصلے اپنے حق میں کرتاہوں۔ میری خوش فہمی کی انتہا ہے کہ اسکے باوجود میں سمجھتاہوں کہ جنت پر صرف میرا حق ہے کیونکہ میں جس کا کلمہ پڑھتاہوں وہ رحمان بھی ہے اور رحیم بھی اور اس کا آخری رسولؐ رحمت ا للعاٰلمین بھی۔