Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Maa Ki Baat

Maa Ki Baat

پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کا اِس وقت مِن حیث القوم سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، مجھے اپنے بچپن کا واقعہ بھی یا د ہے کہ ایک مرتبہ گائو ں میں نے اپنی پھوپھی میرے والد سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ "بھائی مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ دس روپے کا نوٹ تڑوائو تو شام تک پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں لگ گیا؟ " مہنگائی اُس وقت بھی تھی جب خاندان کے سارے بچے دوسرے کسی شہر میں اپنے کسی ماموں یا چچا کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جایا کرتے تھے۔ ماموں یا چچا کے گھر میں جو کسی دفترمیں قلیل آمدنی کے ساتھ ایک معمولی اہلکار ہو تے تھے اورجس کے ہاں انکے سارے بھتیجے، بھتیجیاں اور بھانجے، بھانجیاں و غیرہ ان کے ایک باتھ روم والے گھر میں خوشی خوشی چھٹیاں گزار آتے تھے۔ جب ایک گھر کی شادی گلی کوچے کے ہر گھر کی شادی کے طو ر پر منائی جا تی تھی، اسی طرح ایک گھر کا غم بھی پورے محلے کا غم بن جا تاتھا۔ غمی اور خوشی کے موقعوں پر دوردراز سے آنے والے عزیز رشتہ دار پڑوسیوں کے گھروں میں مہمان ہوتے تھے۔ یہ باتیں آج کل کے بچوں کی سمجھ سے بالکل باہر ہیں جو دائیں بائیں کی جڑی ہوئی دیواروں کے پڑوسیوں کے نام تک سے واقف نہیں ہو تےمہنگائی ہمیشہ سے صرف غریبوں کا مسئلہ رہی ہے۔ مہنگائی کتنی بھی بڑھ جائے امیر کبیر کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ مہنگائی کا حل یعنی دولت اس کے پاس ہے۔ روز اول سے انسانیت دوطبقو ں میں بٹی چلی آرہی ہے غریب اور امیر ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں تو ساتھ ساتھ موجود رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی قومی دھارے میں امیر کم اور غریب زیادہ ہوتے ہیں۔ جن ملکوں نے غربت کی لکیر سے ا یک کثیر تعداد کو کامیابی کے ساتھ اوپر اُٹھالیا ہے غریب وہاں بھی موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان ملکوں میں غریب کے ساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھا جاتا جوپسماندہ ممالک میں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ جاتاہے۔

سورۃ نساء کی آیت نمبر 65میں اللہ فرماتاہے " قسم تیرے پروردگارکی، وہ لوگ اُس وقت تک ایمان والے نہیں قرار پاسکتے، جب تک کہ آپؐ کواپنے معاملات اور جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والا تسلیم نہ کرلیں۔ پھرآپؐ جو فیصلہ کردیں اُس کے بارے میں اپنے دلوں میں تنگی نہ لائیں بلکہ اُسے اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے" اللہ کایہ حکم صرف امیروں کے لئے نہیں ہے غریب مسلمانوں کے لئے بھی ہے مسلمان وہ ہوتاہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے مسلمان کو کوئی تکلیف نا پہنچے۔ کیا یہ حضورؐ کا فرمان نہیں ہے کہ "رشوت لینے والا اور رشوت دینے والادونوں جہنمی ہیں "؟ کیا یہ فرمان رسالتؐ صرف امیروں کے لئے ہے یا غریبوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے؟

ہر ماں کو اپناچوراُچکا بیٹا بھی لاکھوں میں ایک لگتا ہے بالکل اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ساری اچھائیاں صرف ہمارے اندر ہی ہیں، اِس میں شک نہیں کہ ہماری زکواۃ، صدقات، خیرات کی مثال لانا مشکل ہے لیکن اسکایہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غیرمسلم اِس سلسلے میں ہم سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں شاید بہت سارے مسلمان زعما اور دانشوار حضرات بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اور ہسپتال جانے پہچانے یا گمنام بہت سارے انجہانی ارب پتیوں کی چھوڑی ہوئی دولت سے چل رہی ہیں۔ عظیم ترین طبی اور سائنسی تحقیقات اور تکنیکی ایجادات اُن عظیم لوگوں کے طفیل ہورہی ہیں جنہوں نے اپنی دولت کا زیادہ حصہ اپنی اولادکی بجائے مختلف فلاحی اداروں کے نام کردیا تھا۔ حا ل ہی میں ہالی وڈ کے معروف اداکار اور مارشل آرٹ ہیرو جیکی چن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی 350ملین ڈالر پر مبنی دولت اپنے اکلوتے بیٹے جیسی کے لئے چھوڑنے کی بجائے خیرات کردیگا۔ جیکی چن کے مطابق اگر جیسی قابل ہوا تو خود پیسہ کما لیگا اور اگر نالائق ہوا تو اسکی کمائی ہوئی دولت ضائع کردے گا۔ لاہور کا گلاب دیوی ہسپتال، دیال سنگھ کالج اور لائبریری، گنگارام ہسپتال ایسی ہی غیر مسلم شخصیات کی یادگار ہیں جنہوں نے انسانی فالاح و بہبود کو ترجیح دی ہیں۔ ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ مسلمان ارب پتیوں کی اکثریت اپنی ناقابل شمار دولت اور دنیابھر میں پھیلی ہوئی جائیدادیں قیامت کے دن پر یقین رکھنے کے باوجود اپنی ناخلف اور احسان فراموش اولاد کے لئے چھوڑ کرمرجاتے ہیں جو بعد میں اُن کی عزت کی بجائے بدنامی کا باعث بنتی ہے۔ ایک عظیم مسلمان سرسیداحمد خان نے ایک علی گڑھ یونیورسٹی بناکے دے دی تھی جس نے بدلے میں ساٹھ ستر سال کے قلیل عرصہ میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو جنم دیا جو آج مسلمانوں کی واحدایٹمی قوت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ تبھی توفرمایا گیا ہے کہ "کیا علم والااورجاہل برابر ہوسکتے ہیں؟ "

میرے کالم کا عنوان ہے "ماں کی بات" کیوں؟ اِس کے پیچھے میرے بچپن کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ کوئٹہ شہر کی جس گلی میں ہم رہتے تھے سہ پہر میں بچے گلی میں کھیلتے تھے۔ اس دوران مائیں دروازوں کی اوڑھ میں بیٹھی کھیلتے بچوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتی تھیں۔ گلی کے سارے بچے مل جل کر کھیلتے تھے صرف ایک گھر تھا جس کے بچوں کو ہمارے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی وہ بچے ہمارے ساتھ اسکول میں اکٹھے پڑھتے تھے، اکٹھے اسکول جاتے او رآتے تھے لیکن انھیں ہمارے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ ایک دن میں نے ماں سے پوچھا کہ یہ بچے ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتے؟ میری ماں نے بتایا کہ "اُن کے گھر میں رشوت کا پیسہ آتا ہے اِس لئے آپ اُن کے ساتھ نہیں کھیل سکتے "۔ آج کل کے باہمی نفرتوں کے رائج الوقت کسی خطاب کو اس کی وجہ نہیں بتایا گیا صرف رشوت کو معاشرتی بائیکاٹ کی بنیاد بتایا گیا تھا اُس زمانے کے بلوچستان میں بدترین سرداری نظام کے ہوتے ہوئے بھی دس برس میں صرف دوقتل ہوئے تھے۔

۴۔ رشوت کے راج نے ہمیں انسان سے جانور بنادیا ہے اب ہم رشوت لینے اوردینے والوں کو جہنمی نہیں جنتی سمجھتے ہیں۔ آج رشوت خور گھرانے ہی اکثر معزز اور قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارا ہر دفتر دکان بن گیا ہے ہر گھر مکان بن گیا ہے تبھی تو افتخار عارف کہتاہے

میرے خدا مجھے اتنا تو معتبرکردے

میں جس مکان میں رہتاہوں اُس کو گھر کردے

ہر آدمی نے ایک دوسرے کو لوٹنے کی قسم کھارکھی ہے صرف بڑے بڑے کاروباری لوگ ہی نہیں لوٹتے۔ صرف ذخیرہ اندوزہی نہیں لوٹتے، صرف رشوت خور افسر اور سرکاری اہلکارہی نہیں لوٹتے۔ کنڈے سے بجلی لینے والا بھی لوٹتا ہے، میٹر پر چابی لگانے والا بھی لوٹتا ہے، اُستاد بھی لوٹتا ہے، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، نائی، قصائی، مکینک، پیٹرول بیچنے والا، ڈھابہ اور ریڑھی چلانے والا بھی لوٹتاہے حتہ کہ ایک مزدور ایک بھکاری بھی لوٹتا ہے صرف افراد ہی نہیں ادارے بھی لوٹتے ہیں، یونیورسٹیاں لوٹتی ہیں۔ ہسپتال لوٹتے ہیں، کچہریاں لوٹتی ہیں، سکول اور کالج لوٹتے ہیں صرف بدمعاش ہی نہیں لوٹتے، نمازی او ر پرہیزگار بھی لوٹتے ہیں۔

ہر سطح اورہر مقام پرماں کی بات یاد آتی ہے۔ ہم وہ بن گئے ہیں جن کے ساتھ ماں کے مطابق میل جول نہیں رکھنا چاہئے۔ یہی مہنگائی کا واحد علاج ہے۔ خداہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین