سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 100میں ارشاد رب العزت ہے " کہہ دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابرنہیں۔ خواہ تمہیں ناپاکوں کی کثرت بھلی کیوں نہ لگے۔ پس تم تقویٰ الہٰی اختیار کرو اے عقل والو۔ تاکہ تم کامیابی حاصل کرسکو۔" مخلوقات میں سے بہترین مخلوق قرار پانے کے لحاظ سے اللہ انسانوں کیلئے اپنے احکامات اور ہدایات کو نہایت آسان اور واضح ترین الفاظ میں بیان فرما تا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں پاکی اور ناپاکی کی علاوہ تین باتوں کاذکر ہواہے جن میں تقویٰ، عقل اور کامیابی کے الفاظ شامل ہیں۔ یہ رمضان المبارک کا پاک مہینہ ہے اور اللہ ہی نے روزوں کا ایک بڑا مقصد تقویٰ کا حصول رکھاہے۔
پہلے تو یہ سمجھنا ہے کہ پاک کون ہوتاہے؟ مسلمان بنتاہی کلمہ طیّب کے اعلان سے ہے او رطیّب کا معنی پاک ہے۔ پھر ہمارے کلمہ طیب کا دوسرا حصہ رسالت ؐ کی گواہی ہے ہمارا اللہ بھی پاک اور ہمارا نبیؐ بھی پاک۔ اس لئے کہ ہمارا نبی مبعو ث ہی اللہ کی پاک کتاب اورحکمت کی وہ تعلیم دینے کے لئے ہوا ہے جس کا مقصد دلوں کو پاک اور پاکیزہ کرنا ہے۔ آدمی سوچ او رعمل کامجموعہ ہوتاہے۔ آدمی کے سارے خصائل رذیلہ اور اخلاق حسنہ کی بنیاد یا اُس کی سوچ اور خیالات ہوتے ہیں یا اُس کا عمل جو طرح طرح کی سوچوں اور خیالات کا اظہار ہوتاہے۔ آدمی زندگی بھر اچھے یا برے اعمال کو اپنی عقل کے مطابق صحیح یا غلط سمجھ کر انجام دیتاہے۔ ناآدمی اپنی سوچ کے حصار سے باہر نکل سکتاہے اور ناہی اپنے اعمال کے دائرے سے۔ غالباً اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ " ہر شخص اپنے اعمال کی گرفت میں گروی ہے" اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوچیں اور اعمال دونوں پاک اور ناپاک ہوسکتے ہیں پاک سوچوں اوراعمال کا حامل پاک ہوگا اور گندی اور فاسد سوچوں کا حامل ناپاک ہوگا۔ جب یہ فارمولا سمجھ میں آگیا تواب آگے بڑھتے ہیں تاکہ دودھ سے پانی کو جدا کرسکیں۔
اللہ کا فرمان ہے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوسکتے جس کاواضح مطلب ہے کہ پاک ناپاک سے بہتر ہوتاہے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پاک اور ناپاک ہونا دوایسی حقیقی صفتیں ہیں جو حقیقی وجود رکھنے والی چیزوں کے لئے قرار پاتی ہیں مثلا ً پاک یا ناپاک کھانا اور پاک یا ناپاک زمین۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ دین فطرت تخلیق کے اصولوں کا ہی دوسرا نام ہے یعنی دین جس چیز کی دعوت دیتاہے وہ پاکیزہ زندگی سے عبارت ہے اور جس چیز سے منع کرتاہے وہ ناپاک ہو تی ہے۔ اسی لئے اللہ نے پاکیزہ چیزیں ہی حلال کی ہیں اور ناپاک اور خبائث کے علاوہ کوئی چیز حرام قرار نہیں دی۔ البتہ جن امور کی بابت پاک اور ناپاک جسی صفات کا اطلاق ہوتاہے اور غیر وجودی چیزوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً پاکیزہ حکم اور ناپاک حکم، پاکیزہ اخلاق اور ناپاکیزہ اخلاق، پاکیزہ رزق او رناپاکیزہ رزق۔ اس طر ح کا استعمال حقیقی نہیں مجازی ہوتاہے کہ جو کسی اضافی جہت پر مبنی ہو تاہے، اس سے اس حقیقت کی گواہی ملتی ہے کہ طیب اور خبیث سے مراد اُن کے حقیقی معانی ہیں جو عالم وجود میں پائی جانے والی چیزوں کے لئے ہو تے ہیں۔ اس سے مطلب واضح اور وہ دلیل مضبوط ہوجاتی ہے کہ جسے کسی بھی حوالے سے ناقابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر صورت حال اس کے برعکس ہوتی یعنی اس سے مر اد صرف اعمال غیر وجودی امور ہوتے تو مطلب اس قدر واضح اور روشن نا ہو تااور نا ہی دلیل قابل اعتبار قرار پاتی جس کے نیتجے میں ہر گرو ہ اپنے طریقے اور طرز عمل کو پاکیزہ قرار دیتا اور جو چیز ان کی مرضی اور خواہشوں کے مطابق نا ہوتی تو اُسے ناپاک قرار دیدیتا۔
یہی وجہ ہے کہ جن با توں کو اللہ اور اُس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے وہ باتیں یا چیزیں اپنے وجود کے اندر شر کی حامل ہیں اور ناپاک ہیں مثلاً جھوٹ اپنی سرشت میں ناپاک ہے اس کے مقابلے میں سچ پاک ہے ظالم اپنی سرشت میں ناپاک ہے اسلئے جھوٹے اور ظالم پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں رحمدلی پاک ہے اس لئے پاک ہے کہ خود خدائے رحمان پاک ہے۔ اس طرح سارے خصائل رذیلہ ناپاک ہیں جس طرح غیبت فساد ریاکاری، حسد، بغض، زنا، چوری، چغل خوری، رشوت، جبر اور طرح طر ح کی زیادتیاں، غرور و تکبر او ر لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا ناپاک اعمال ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا، محبت ویگانگت، اتفاق اور بھائی چارہ پیدا کرنا عادات حسنہ یعنی پاک اعمال میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ اعمال اپنے وجود میں پاک ہیں جس طر ح سچ پاک ہے۔ چاہے مسلمان بولے یا کافر بولے اور جھوٹ ناپاک ہے چاہے مسلمان بولے یا کافر بولے بالکل اسی طر ح ہر قسم کا ظلم وزیادتی ناپاک ہے چاہے مسلمان کرے یا کافر۔ تبھی فرمایا گیا " کہ کفر کا نظام تو چل سکتاہے لیکن ظلم کا نہیں "۔ سرکار دوعالم ؐ نے کوڑا پھینکنے والی کافر اور بیمار بڑھیا کی تیمارداری کرکے ثابت کردیاتھا کہ پاک عمل کا حقدار آپ کا بدترین مخالف بھی ہو سکتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکیزگی اورصفائی زمین آسمان کا فرق ہے۔ صفائی کو اسی لئے نصف ایمان سے تشبیہ دی گئی ہے کہ ظاہر ی صفائی باطنی طہارت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے لیکن ایمان اسی صورت میں مکمل ہوسکتاہے جب صفائی پاکیزگی کا درجہ اختیار کرجائے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے نماز سے پہلے وضو کی حکمت کو سمجھناہوگا۔ نہادھوکر اوربے داغ کپڑے پہننے کے بعد صاف ستھرے تو ہوجاتے ہیں لیکن نماز کے لئے وضو کئے بغیر ہم پاک نہیں ہوسکتے۔ جس طرح کھڑے پانی کے ذخیرے کو نجاست کا ایک قطرہ بھی ناپاک کردیتاہے بالکل اسی طرح ذراسی ریاکاری ساری عبادت کا ستیاناس کردیتی ہے۔ رشوت کی کمائیوں سے ڈھرساری زکواۃ اور خیرات کسی کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ملاوٹ چاہے اشیاء خورونوش میں ہو، ادویات میں ہو یا نظریات وخیالات میں حتیٰ کہ زہر کے اندر بھی ہوتو اپنا متوقع اثردکھانے سے قاصر رکھتی ہے۔ روزہ اس ظاہر ی صفائی اور باطنی طہارت کے ملاپ کا نام ہے جو ایمان کو مکمل کر تاہے صفائی نظر آتی ہے جبکہ طہارت پوشیدہ رہتی ہے۔ غائب پر ایمان کا مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمان صرف زبان سے غائب کا اقرار نہیں بلکہ دل سے اُسکی تصدیق بھی کرے۔ جتنا ایک مظلوم اور بے بس شوہر بیوی سے ڈرتاہے اُس کا آدھا بھی اگر اللہ سے ڈرنے لگ جائے تو ہمارا معاشرہ بہت ساری نحوستوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتاہے ہم اللہ سے کم اور افسر سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ہمارا دین ہمارے رسم ورواج کے تابع کردیاگیا ہے۔ ان ساری باتوں نے ہماری عقل ہم سے چھین لی وہ عقل ہم سے چھین لی ہے جس نے ہمیں تقویٰ الٰہی اختیار کرانا تھا، وہ تقویٰ الٰہی جو مسلمان کی کامیابی کی ضمانت بتایا گیا ہے۔