لوگ وقت ضرو رت یا بلا ضرروت قسمیں کھاتے ہیں قسم صرف مسلمان ہی نہیں کھاتے۔ سبھی مذاہب کے پیروکار، ک کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے اورمشرک بھی قسم کھاتے ہیں۔ قسم کھانے والا اور جس کے سامنے یا جس چیز یا بات کے لئے قسم کھائی جائے وہ دونوں معتبر اور اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ قسم کے معتبر ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ جہاں دلیل موجود نہ ہو، وہا ں قسم کھانے والے کے باطنی ایمان سے آگاہی پر اکتفاکیا جاتاہے اور وہ اس لئے کہ ایک د ینی معاشرہ افراد کے خدا پرایمان پر مبنی ہوتاہے اور ہر شخص اس مجموعہ مرکب کے ایک جز کی حیثیت رکھتاہے۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی قوم وملت میں عمومی وخصوصی سطح پر ظہور پذیر ہونے والے آثار اُن کی دینی اقدار سے وابستہ ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ایک غیر دینی معاشرہ لوگوں کے قومی مقاصد اورمفادات پر مبنی ہوتاہے یہی قومی مقاصد اور مفادات ان کے درمیان رائج آداب ورسومات اور معاشرتی قوانین کا اصل سرچشمہ قرار پاتے ہیں یعنی ایک دینی معاشرہ میں قسم کی طاقت دین سے وابستہ ہوتی ہے چاہے ظاہر میں ہویا باطن میں جبکہ ایک غیردینی معاشرے میں قسم کی طاقت ملکی اور قومی مفادات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے چاہے ظاہر میں ہو یا باطن میں قسم کی تیسری طاقت فرد کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے چاہے کسی دینی حوالے سے ہو یا معاشرتی حوالے سے ہو۔ ایسی صورت میں اچھائی یا برائی سچ یا جھوٹ اور غلط اور صحیح کی کسوٹی فرد کی ذات کو بنایا جاتاہے یعنی حق وباطل کا معیار دینی احکامات اور قومی مفادات کی بجائے خود متعلقہ فرد کی ساکھ ٹھہرتی ہے۔
قسم کیوں کھائی جاتی ہے؟ قسم اپنی بات، وعدے، منصوبے، خلوص، وفاداری، گواہی یا ایمان کو ثابت کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ کیا قسم کھانے والا نیک اور سچا ہی ہوتاہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اسلئے کہ لچے لفنگے جھوٹے دھوکے باز اور بدمعاش زیادہ قسمیں کھاتے ہیں اور بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ قسم کھانا اُن کا آخری آسراہوتاہے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے اُن کے پاس سوائے قسم کھانے کے او رکوئی راستہ نہیں ہوتا یہ بات تو پہلے سے بتائی جاچکی ہے کہ کسی مرحلے یا کیفیت یا صورت میں دلیل کا فقدان قسم کا راستہ کھول دیتا ہے قسم ان حقائق کو منوانے یا تسلیم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے جنہیں کسی اور نا قابل تردید ذریعے سے تسلیم نہ کرایا جاسکے۔
کیا قسم صرف گذشتہ واقعات یا حادثات کو سچا یا جھوٹا یا صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے ہی کھائی جا تی ہے یا مستقبل کے منصوبوں، وعدوں اور ایک مخصوص طرز عمل کو اختیار کرنے کے لئے بھی قسم کھائی جاسکتی ہے؟ عدالتوں میں گواہاں اکثر گذشتہ واقعات کی صحت کو صحیح درست یا غلط ثابت کرنے کے لئے قسم کے سہاروں کے ساتھ دی اور دلائی جاتی ہیں جبکہ بڑے بڑے عہدوں او رمناسب کے درج شدہ مقاصد کے حصول کیلئے قسم حلف کی صورت میں مستقبل کے حو الے سے کھائی جاتی ہے دونوں صورتوں میں کسی ایک فرد کی ذات متعلق ہوتی ہے یعنی ایک طر ف قسم کھانے والا جبکہ دوسری طرف وہ گروہ، دفتر، ادارہ، عدالت یا معاشرہ ہوتاہے جس کی تسلی یا یقین کے لئے قسم کھائی یا اُٹھائی جاتی ہے۔
کیا قسم کھانے والا صرف بے بس اور لاچار ہی ہوتاہے یا طاقتور او رقوی بھی قسم کھا تاہے؟ ماضی میں انجام پانے والے واقعات، حادثات اور اعمال کے سلسلے میں قسم کھانے والے بے بس او رلاچار بھی ہوسکتے ہیں لیکن بڑے بڑے عہدوں اور مناسب کے لئے مستقبل کے حوالے سے قسم کی صورت میں حلف اٹھا نے والے ہر گز بے بس اور لاچار نہیں ہوسکتے قسم کا تعلق لاچارگی اور بے بسی سے نہیں ہے کیونکہ قسم تو خود خدائے ذولجلال جو ساری کائنات کا بلاشرکت غیرے او رہرچیز سے بے نیاز اور مالک ہے متعدد مقامات پر اپنی مخلوق میں سے کئی چیزوں کی قسم کھاتا ہے۔ مثلا ً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ دریا تین و زتیون، گھوڑا، شب وروز، صبح شفق، عصر، دن کا پہلا حصہ، نفس کتاب وقرآن عظیم، حیات پیغمبر اور ملائیکہ اور ان کے علاوہ دیگر مخلوق کی قسم کھاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قسم کا تعلق کسی طرح بھی بے چارگی او رلاچاری سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
پھر قسم کیوں اہم سمجھی جاتی ہے؟ اس لئے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے درمیان مختلف مواقع پر غیر یقینی صورت حال کے خاتمہ کے لئے قسموں کا سہارا لیا جاتاہے تاکہ معاشرتی پیچیدگیوں پر قابوپایا جاسکے اور مخصوص اہداف تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ مثلاً تہمت کو دُور کرنے، جھوٹ سے چھٹکارا پانے، تسلی او رتسکین نفس اور اپنے بیان کی تصدیق وتائید کے لئے قسم کا سہار ا لیاجاتاہے اسلام میں بھی قسم کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس بابت خصوصی احکام بھی مقرر ہوئے ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ جب اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائی جائے اور یہ صرف اس حوالے ہو کہ ربوبیت کے مقام کی حرمت یا خدائے ذولجلال کی عظیم ذات کا سہارا لیکر کوئی ایسی بات یا کام نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت کی پاسداری کے منافی ہو یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قسم توڑنے پر خاص کفارہ مقرر کیا گیاہے۔ سورۃ مائدہ میں ارشاد رب العزت " خدا وند عالم تمہاری بے ہودہ قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا لیکن قسمیں کھاکر ان کی خلاف ورزی کرنے پر تمہارا مواخذہ ضرور کرتاہے، لہذا ایسا کرنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے" اس سے اللہ کے نزدیک قسم کی اہمیت صاف ظاہر ہوجاتی ہے کیونکہ قسم آدمی اسی چیز کی یا بات کی کھاتاہے جو نہ صرف اسکے نزدیک عزیز ترین اور معزز ترین ہوتی ہے بلکہ جن کی موجودگی میں ایسی قسم کھائی جاتی ہے ان کے لئے بھی اسی حد تک اہم ہوتی ہے ایسی قسم کی خلاف ورزی اپنی چاہت، ایمان، خلوص احترام اور تعلق کا صاف صاف انکار کرنے کے مترادف ہو جاتاہے جو کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوتا اب یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض لوگ تھوڑے سے فائدے کے لئے قرآن کی آیات بھی بیچ دیتے ہیں اپنی قسمیں بھی بیچ دیتے ہیں، بھرے مجمع میں کئے گئے وعدے وعید اور اُٹھائے گئے حلف نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ہوا میں اڑادیتے ہیں بہن کی عزت کی قسم کھانے کے بعد اُسے بھری عدالت میں وارثت سے محروم کرتے ہیں دھوم دھام سے نکاح او رشادی کے بعد دنیا بھر میں ایک دوسرے کو رسواکرنے سے نہیں چوکتے۔ استاد، ڈاکٹر، وکیل، ملاّ، افسر وغیرہ کی اپنے پیشیوں کے تقاضوں سے روگر دانیاں دراصل اپنی قسمیں توڑنے کے مترادف ہی ہے۔
قسم پر پورا اترنے کا معیار کیا ہے؟ یہ معیار 21رمضان المبارک کو مسجد کوفہ میں فجر کے وقت حالت سجدہ میں سر پر تلوار سے ضرب کھانے بعد چوتھے خلیفہ نے یہ کہہ کر بتایا " رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا "۔ مطلب؟ یقین کے بغیر قسم اور قسم کے بغیر یقین کی کوئی اہمیت نہیں۔ نااس دنیا میں اور ناہی آخرت میں۔ بغیر یقین کے قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔