ہر قوم ملک اور معاشرے میں بے شرمی کا معیار اس کے مخصوص حالات، نظریات اور عقائد وضوابط کے حساب سے متعین ہوتاہے ممکن ہے جو بات میرے لئے باعث شرم ہو وہ کسی اور کے لئے باعث فخر ہو۔ جس طرح ایک قوم کا ہیرو کسی دوسری قوم کا ولن بھی ہوسکتاہے۔ ایک قوم کی اچھائیاں کسی دوسری قوم کی برائیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ظاہر ہے اس لحاظ سے مختلف لوگوں اور قوموں کی بے حیائیاں بھی مختلف ہوتی ہیں۔
اس لئے کہ آدمی کا کسی مانی ہوئی کسوٹی اور معیار پر پورا نا اُترسکنا اس کی بے شرمی کا باعث بن جاتاہے۔ اسی لئے ہر آدمی اور قوم دوسروں کو اپنی اقدار کے مطابق بے شرمی یا طعنہ دیتی ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا اپنا تہذیب کی اچھائیوں کو اپنے سے بہت بہتر تہذیب اور روایات کی حا مل قوموں پر مسلط کرنے کے لئے کوشاں ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ان کی جمہوری اقدار قابل فخر اور مقابلتاً غیر جمہوری ملکوں کی اقدار اس میں قابل نہیں ہیں۔
بے حیائی کیا کچھ نہیں کراتی۔ کیا بے شرم عقلمندنہیں ہوتا؟ کیا بے شرم دوستوں کا دوست، یاروں کا یا ر اور رشتے داروں کا رشتے دار ہوتا؟ اگر ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے بھی آدمی بے شرم ہوسکتا ہے تو پھر حقیقی بے شرم کون ہوتا ہے؟ اس کی پہچان کیا ہے اس بات کو سمجھ لینے کے بعد کہ بے حیائی کا تعلق عقل ودانش، مال ودولت، عزت وشہرت سے ہر گز نہیں کیونکہ بے شرمی ان سب کے اندر پوری طرح گھر کر سکتی ہے۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ لوگ اپنے ہی طے کردہ یا تسلم شدہ کسوٹیوں اور معیار وں کے خلاف ہر بات یا چیز یا حرکت کو اپنے لئے باعث شرم محسوس کرتے ہیں تو کیا ا سکا مطلب یہ ہے کہ ایسی کوئی کسوٹی یامعیا ر ہے ہی نہیں جو پوری انسانیت کے لئے باعث ننگ وشرم ہو۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کے مختلف معیاروں اور کسوٹیوں کے باوجود چند باتیں اورمعیار اور چیزیں ایسی ہیں جن پر ساری انسانیت متفق ہے۔
ایسی کچھ با تیں ضرور ہیں جنہیں پوری دنیا اچھا اور باعث فخر سمجھتی ہے اور ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں ساری دنیا برا اور باعث شرم سمجھتی ہے۔ مثلاً جھوٹ کو ساری دنیا جھوٹ سمجھتی ہے اور اسی لئے بُرا جانتی ہے۔ بدیانتی کو ساری دنیا کے لوگ باعث شرم سمجھتے ہیں، وعدہ خلافی کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا، دوغلہ پن سب کے لئے باعث ذلت ورسوائی ہوتاہے۔ خوش خلقی دنیا کے سارے لوگوں کے لئے باعث شائش ہے۔ ضررو ت مندکی مدد کرنا سب اچھا سمجھتے ہیں اور ظالم اور متکبر سے سبھی نفرت کرتے ہیں۔
آدمی کے اندر صرف ایک چیز کی کمی اُسے بے حیابنا دیتی ہے۔ اُس چیز کا نام ضمیر ہے۔ عقل کی طرح ضمیر بھی صرف انسانوں کے لئے ہی مخصوص ہے کیونکہ حیوانوں سمیت دوسری کسی مخلوق میں عقل کی طرح ضمیر بھی نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل اور ضمیر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جس آدمی میں عقل نہیں ہوتی اُس کا ضمیر بھی نہیں ہوتا۔ اسی لئے ایک پاگل شخص عقل کے ساتھ ساتھ ضمیر سے بھی محروم ہوتا ہے جبکہ اس کے حواس خمسہ سلامت ہوتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آدمی کا ضمیر آدمی کی عقل کے تابع ہوتاہے۔ جو ضمیر عقل کی حاکمیت سے آزاد ہوجائے وہ ضمیر نہیں رہتااور اُس کے خلاء کو صرف شیطانیت پر کرتی ہے، دوسرے لفظوں میں جس آدمی کے اندر ضمیر نہیں ہوتا اس کی جگہ شیطانیت لے لیتی ہے۔ اس بات کو بھی دنیا بھرمیں تسلیم کیا جاتاہے ضمیر آدمی کے اندر کی اچھائیوں کے لئے ڈھال کا کام کرتاہے اور اگر یہ ڈھال نا رہے تو آدمی انسان کی بجائے شیطان بن جاتاہے۔
ضمیر آدمی کو بے شرمی کی ذلتوں اور پستیوں میں دھنسنے سے بچاتاہے جبکہ شیطانیت اسے اپنی پستیوں میں دھکیلتی ہے۔ جس آدمی کا ضمیر مرجائے وہ آنکھوں کے ہوتے ہوئے اندھا، کانوں کے ساتھ بہرہ، زبان رکھتے ہوئے گونگا اور ہاتھوں پیروں سمیت لنگڑ ا لولا ہوتاہے۔ اسلئے کہ عقل ظاہر کو پر کھنے کانام ہے اور ضمیر باطن کو پرکھنے کاکام کرتاہے۔ عقل سب کو پرکھتی ہے جبکہ ضمیر صرف فرد کو پرکھتاہے۔ کہتے ہیں کہ ہر آدمی خود کو عقلمند اور دوسروں کے بے وقوف سمجھتا ہے۔ لیکن کوئی باضمیر کسی دوسرے کو بے ضمیر نہیں سمجھتا۔
مسلمان ہونے کی شرط بھی زبان سے اقرار اوردل سے تصدیق پرمنحصر ہے۔ زبان سے اقرار ظاہر اور دل سے تصدیق باطن سے تعلق رکھتی ہے۔ چونکہ نیت کا تعلق بھی دل سے ہوتاہے اس لئے فرمایا گیا کہ" اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے بے شرم کہنے کا حق نہیں رکھتااس لئے کہ دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔ راقم یہ کالم شعبان کے مہینہ میں لکھا ہے جس میں ایک رات شب برات بھی آتی ہے جو اب گزر چکی ہے۔
اس مبارک رات میں آئندہ سال میں لوگوں کی زندگی اور موت، رزق کی تنگی اور کشائش، صحت وتندرستی، کامیابی اور ناکامی اور عزت وآبرو سے متعلق لوگوں کے تمام پہلوئو ںکی تقدیر لکھی جا تی ہے۔ جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو میں بھی یہ جانا کہ میرا ضمیر میری عقل کے تا بع نہیں ہے۔ میرا ضمیر میری عقل کے تابع ہونے کے بجائے میری نفرتوں اور محبتو ں کے تابع ہے۔ میرے رسم ورواج کے تابع ہے۔
میری خواہشات اور طرح طرح کے وسوسوں کے تابع ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کو بھی اپنی عقل کے تابع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ میں نے جب اپنے اُس اللہ کے احکامات کو سامنے رکھا جو رحمان ورحیم ہے اور جس نے قیامت کے دن میرا حساب لینا ہے، تو مجھے پتہ چلا کہ میں تودن رات زندگی بھر اُس اللہ کی نافرمانیاں کرتارہاہوں اور کبھی تو بہ نہیں کی۔ عالم یہ کہ ہم اللہ سے کم اور بیو ی بچوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ کیونکہ میں ان کی خوشیوں کے لئے اللہ کی نافرمانی کرتا ہوں۔
میں صلہ رحمی کے بجائے اپنے بھائی کا گوشت کھانا زیادہ پسند کرتاہوں۔ میں نے سود کھاکھا کر اپنے رحمان ورحیم اللہ کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری ساری برائیوں کے ساتھ مجھے اچھا سمجھیں۔ میں چاہتاہوں لوگ میری ریاکاری کو میری عقلمندی سمجھیں اورمیری بے ہودہ گفتگو کو دانش واری اور میری بے حیائی کو میری خوبصورتی سمجھیں۔ میں ہر قسم کی وراثتی اور انتخابی امانت کو لوٹانے کا وعدہ کرکے اُسے ہڑپ کرجاتاہوں، میں اس لئے بے شرم ہوں کہ مجھے ان میں سے کسی بات پر بھی شرم نہیں آتی۔
دعا کریں اکہ اللہ کریم ہمیں بے حیائیوں سے بچائے اور ہماری عز توں کی حفاظت فرمائے۔