Sunday, 03 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ali Mardan Khan Aur Budhu Ka Maqbara

Ali Mardan Khan Aur Budhu Ka Maqbara

ہم جب کبھی روزمرہ کی گفتگو کے دوران کسی گائوں، کسی شہر، آس پاس کے کسی گلی محلے یا علاقے کا نام لیتے ہیں تو سرسری گزر جاتے ہیں کہ یہ محض ایک نام ہے ایک پہچان ہے۔ ہم کم ہی اس کی کسی تاریخی نسبت یا قدامت کے کسی حوالے پر غور کرتے ہیں کہ آخر یہ چوہڑکانہ ہے تو یہ شخص چوہڑ کون تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو آباد کرنے والا درویش ٹیک سنگھ کہاں سے آیا تھا۔ وہ گویا سائیں کون تھا جس کے نام کے تالاب کو سرگودھا کہا گیا وغیرہ۔ اسی طور روایت ہے کہ اس نے اپنا مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ ظاہر ہے جو شخص شاہجہان کا چیف انجینئر اور ماہر تعمیرات تھا اس نے اپنے مقبرے کی تعمیر و تزئین میں تو کمال کر دیا ہو گا۔ لیکن ہم سے وہ کمال پوشیدہ ہی رہا۔ مغلپورہ کی لوکو ورکشاپ کے سامنے سرکاری اور بوسیدہ ہو چکی عمارتوں کی دیواروں کے باہر ایک ایسا زنگ آلود نیلا بورڈ آویزاں تھا جس کی تمام عبارت کو زنگ چاٹ چکا تھا اور صرف "مقبرہ علی مردان" کسی حد تک پڑھا جا سکتا تھا۔ اس بورڈ کے برابر میں ایک طویل سرنگ نما راستہ چلا جاتا تھا۔ شنید تھی کہ اس سرنگ کے پار کہیں مردان خان کا مرقد ہے لیکن سرنگ نما راستہ بھی کھلا نہ تھا۔ ایک آہنی پھاٹک کی سلاخیں راستے میں حائل تھیں جن میں سے وہ سرنگ دور تک جاتی دکھائی دیتی تھی اور وہ پھاٹک مقفل تھا کھوج کرنے پر کھلا کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر صرف جمعرات کو علی مردان خان کے مقبرے کا یہ پھاٹک کھلتا ہے۔ بقیہ ہفتہ قفل زدہ رہتا ہے اس قفل زدگی میں کیا حکمت عملی پوشیدہ تھی ہم تو نہ جان سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے کہ ایک اہم تاریخی مقبرے کو لوگوں کی نظروں سے کیوں چھپایا جا رہا ہے۔ اسے میں تو ایک تاریخی جرم کا نام دوں گا۔ لاہور کے یہ علاقے مغلپورہ، باغبانپورہ اور بیگم پورہ وغیرہ کیوں کہلاتے ہیں۔ صرف مغلپورہ کو الگ کر لیجیے تو کھلے گا کہ اس علاقے میں مغل رئوسا اور شہزادوں کی شاہانہ رہائش گاہیں تھیں اور اس لئے بہت سے مغل مقابر اور مساجد مغلپورہ کی گھنی آبادی میں اگر تلاش کریں تو مل ہی جاتے ہیں ان میں ایک مقبرہ شاہجہاں کے تعمیراتی مشیر اور انجینئر علی مردان خان کا ہے جس کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ مقبرہ، مقبرہ جہانگیر کی گل بہار آرائشوں اور شان و شوکت کی عظمتوں کی ہمسری کرتا تھا۔ کنہیا لال لکھتے ہیں کہ علی مردان خان خصوصاً عمارت کے کام میں ایسا استاد تھا کہ کروڑوں روپے اس کے ہاتھ سے صرف ہوئے۔ علی مردان خان کا باغ المشہور نولکھا دہلی کی نہر جو عین شہر اور قلعہ میں پھرتی ہے اس شخص نے کھدوائی۔ دہلی سے ہانس حصار تک جانے والی نہر اور پھر نہر ہنسلی مادھو پور بھی اسی نے کھدوائی جسے لاہور لا کر شالامار کو سیراب کیا۔ شالامار کا پورا آبی نظام اسی مردان خان کی مہارت نے قائم کیا۔ ہذاالقیاس دیگر ہزاروں عمارتیں بنوائیں جن کا حدوحساب نہیں، آخر 1066ہجری میں فوت ہو کر اسی جگہ مدفون ہوا جہاں اب مقبرہ بنا ہوا ہے۔ صدیق شہزاد مردان خان کا یہ مقبرہ دیکھ چکا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اس عمارت کی جتنی بھی آرائشیں امتعداد زمانہ کا شکار نہیں ہوئیں وہ دیکھنے کے لائق ہیں اور بے مثال ہیں۔ ہم اس سرنگ میں تانک جھانک کر چلے آئے یہ سوچ کر کہ چلو ہم علی مردان خان کا مقبرہ تو نہ دیکھیں گے لیکن لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، وہ ابلتے فوارے، ترل رل گرتی آبشاریں اور تالاب شالیمار کے وہ آبی نظام جو آج بھی رواں ہیں، جنہیں علی مردان خان ایسے انجینئر نے تخلیق کیا کہ آج کی آوارگی کا اختتام شالیمار باغ میں ایک لاہوری ناشتے کے اہتمام پر ہونا تھا۔ تب ہماری سفید مینڈکی چلی اور چلتی گئی اور ہمیں بدھو کے پاس لے گئی۔ یاد رہے کہ آج ہم نے دو بدھوئوں سے ملاقات کرنی تھی ایک وہ جس کے مبینہ مقبرے کے باہر ہم کھڑے تھے اور ایک وہ جو اپنی "حویلی" کی کھنڈر دیواروں کے سائے میں نہیں جانتا تھا کہ ہم اسے ملنے کے لئے چلے آ رہے ہیں اور یہ بدھو زندہ تھا اور اب بھٹوہو چکا تھا۔ ان زمانوں میں بدھو کا لفظ علامت ہے حماقت کی اور سادہ لوحی اور بیوقوفی کی۔ یعنی لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ جانے کیوں کچھ لوگوں کو بدھو پلستر بھی کہا جاتا ہے اور کسی دیسی کھیل مثلاً گلی ڈنڈا یا کشتی وغیرہ کے دوران مدمخالف کو "ہٹ کے بدھو" بھی کہا جاتا ہے جب کہ پرانے زمانوں میں بہت سے بدھو ہوا کرتے تھے اور ان کا شمار شرفاء اورفقرا میں ہوتا تھا مثلاً جھنگی بدھو شاہ ایک سید بادشاہ تھے۔ ان کی رہائش گاہ کا نام تھا جو ثمردار درختوں یعنی آم، شہتوت، انار، لیموں، جامن اور بیریوں کے جھنڈ میں گھری ہوئی تھی اور اس جھنڈ کو پنجابی میں جھنگی کہا جاتا ہے جیسے ایس عشقے دی جھنگی وچ مور بلیندا یعنی اس عشق کے ثمر آور باغوں میں مور بولتاہے۔ اس بدھو شاہ کا شجرہ نسب خادم جنید بغدادی، حسن بصری سے ہوتا ہوا حضرت علیؓ تک جا پہنچتا ہے چنانچہ وہ کوئی معمولی بدھو نہ تھے۔ میرا قیاس ہے کہ یہ کسی نام کا بگڑا ہوا لقب ہے اور بعد کے زمانوں میں شائد اس کے صوتی تاثرات کی بنا پر اسے حماقت سے منسلک کر دیا گیا۔ اس بدھو شاہ کے ایک بیٹے کا نام بھی بڈھن شاہ تھا۔ چنانچہ ہم ایک ایسے مقبرے کے سامنے کھڑے تھے جو بدھو کا نہ تھا لیکن ایک مدت تک اس کے نام سے منسوب رہا اور یہ بدھو کون تھا جس کے نام کا ایک ٹیلہ "بدھو دا آوا" اب بھی کہیں موجود ہے یہ آوا یا بھٹہ لاہور سے مشرق رویہ بہ فاصلہ تین میل کے تھا۔ شاہجہان کے عہد میں بدھو نام کا ایک کمہار اینٹیں بنانے میں کمال رکھتا تھا اور چونکہ اس عہد میں شاہجہان سلطنت کے دیگر فرائض سے غافل ہو کر دن رات محلات، باغات اور مقبرے وغیرہ تعمیر کرنے میں مشغول ہو گیا۔ اور عمارتیں اینٹوں سے بنتی ہیں چنانچہ بدھو شاہجہان کا ایک محبوب ہوا کہ اسے اینٹ کا بادشاہ قرار دے دیا۔ بدھو کی دھوم پڑ گئی اور اس کا شمار لاہور کے متمول افراد میں ہونے لگا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز شدید بارش میں سردی سے کانپتا ایک مجذوب عبدالحق نامی بدھو کے بھٹے پر پہنچا اورتاپنے کے لئے کچھ آگ طلب کی۔ بدھو صاحب دولت کے نشے میں تھے مجذوب کو زدوکوب کر کے نکال دیا۔ مجذوب صاحب نے طیش میں آ کر بددعا دی کہ جا تیرا بھٹہ بیٹھ جائے۔ تیری اینٹیں کچی رہ جائیں۔ اب بدھو میاں لاکھ آگ جلائیں تو وہ جلے اوربجھ جائے اس کا واقعی بھٹہ بیٹھ گیا تب مجذوب سے معافی کا خواستگار ہوا تو اس نے دعا دی کہ جا تیری کچی اینٹیں بھی سونے کے بھائو فروخت ہوجائیں اور ایسا ہی ہوا۔ فقیر عبدالحق کے مرنے پر بدھو نے اس کے لئے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا۔ اینٹیں چونکہ گھر کی تھیں اس لئے کچھ زیادہ خرچہ نہ ہوا ہو گا ہم جس مقبرے کے سامنے کھڑے تھے وہ بھی مقفل تھا اور آہنی جنگلے کے پیچھے ایک بورڈ آویزاں تھا۔"بدھو کا مقبرہ""عام طور پر یہ مقبرہ بدھو کے نام سے موسوم ہے جو شاہ جہاں دور میں شاہی عمارتوں کی تعمیر کے لئے اینٹیں مہیا کرتا تھا لیکن تاریخی اعتبار سے یہ بقرہ خان دوراں کی بیوی سے موسوم ہے جس میں اس کی بیوی مدفون ہے۔ خان دوراں بہادر نصرت جنگ شاہجہاں کے عہد میں اہم امرادربار میں شمارہوتا تھا۔ وہ 1643ء میں فوت ہوا وہ اپنی بیوی کے نزدیک مقبرہ میں مدفون ہوا غالباً یہ مقبرہ ایک چہار دیواری والے باغ کے اندر تھا جس کے چاروں طرف محرابی دالان تھا۔ بلند گنبد کو روغنی اینٹوں سے سجایا گیا۔"ویسے اس ویران مقبرے کا گنبد جو نیلی روغنی اینٹوں سے ڈھکا ہوا ہے نہائت منفرد اور دیکھنے کے لائق ہے۔ سمر قند میں امیر تیمور کے مدفن "گور امیر" کے شاندار گنبد سے بے حد مشابہت رکھتا ہے۔ بدھو بے چارہ بدھو ہی رہا۔ اس مجذوب کے مقبرے کے ساتھ اپنے لئے میں ایک شاندار مقبرہ تعمیر کر لیتا۔ جانے کہاں دفن ہے۔ بدھوئوں کے نصیب ایسے ہی ہوتے ہیں۔

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.