چند برس ادھر ان سطور میں عرض کیا تھا کہ "پاکستانی سیاست میں بدتمیزی الٹے سیدھے نام رکھنے، گالم گلوچ اور مخالف سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی خواتین بارے سطحی زبان کا استعمال بھی بٹوارے کا ورثہ ہے، آغاز آل انڈیا مسلم لیگ نے کیا پھر پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے ان فصلوں کی کاشت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بالآخر 1988ء میں جنرل حمید گل کی چھتر چھایہ میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے بدزبانیوں اور بیسوا گریوں کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے لیکن ان سب خرابوں کو نفرت میں گوندھ کر سیاست کا تازہ رزق عمران خان نے بنایا اور ایک ایسی نسل تیار کردی جو بات بات پر گالی دیتی، گریبانوں سے الجھتی اور ڈوپٹے نوچتی ہے"۔
تب ہمارے ایک دوست نے ایک جوابی کالم لکھوایا جس میں انصافی کلٹ کی بدزبانیوں کا "بھرپور" دفاع کیا گیا۔ پچھلے دو اڑھائی عشروں سے تواتر کے ساتھ ان سطور میں لکھتا آرہا ہوں کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعت کو بہرطور (اگر وہ واقعتاً سیاسی جماعت ہو) مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی پڑتے ہیں۔
سیاسی تنہائی کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ خود ساختہ سیاسی تنہائی اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس خودساختہ سیاسی تنہائی سے بنے ماحول میں کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی اپنی مایوسی کو نفرت کا زہر پلاکر سماجی اقدار، جمہوری روایات وغیرہ پر حملہ آور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوتی جاتی ہے۔
ہمارے ہم شعبہ (صحافت کے) جو دوست، ایک کلٹ کی حمایت میں پیش پیش ہیں ان میں اکثر خاندانی طور پر متاثرین جماعت اسلامی ہیں کئی عشروں تک یہ "خدا اور آرمی" والی منطق کو حرف آخر کے طور پر پیش کرتے رہے ان میں سے کچھ کو تیسرے اور کچھ کو چوتھے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف میں نجات دہندہ بھی دیکھائی دیا۔
چند ایک نے 1988ء سے 1999ء کی درمیانی دہائی کے دوران جناب نواز شریف کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ ایک قابل احترام دوست نے تو جناب نواز شریف میں سقراط اور حسیین بن منصور حلاج بھی ڈھونڈ لیا تھا۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خدا کا نمائندہ سمجھنے والے ماضی میں طعنہ دیا کرتے تھے کہ ریاست کی جغرافیائی بقا کی ضامن فوج کی مخالفت کرتے ہوئے بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ آج کل یہی دوست ایک لمحے میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوائی غلط تھی۔ ان دوستوں کے نزدیک اس وقت عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے "باوا آدم" ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ خود عمران خان درجن نہیں درجنوں بار یہ کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوں گے۔
سر دُھنتے ہمارے دوست کہتے ہیں یہ درست موقف ہے ملک کے اصل مالک تو یہی اسٹیبلشمنٹ والے ہیں۔ عمران خان کے مخالف سیاستدان تو ٹوڈی ہیں یا ملازم۔ عجیب بات ہے نا جو کام (اگر ہو ویسے ماضی میں ہوا بھی) عمران خان کے لئے صریحاً حلال فوڈ جیسا ہے وہی اس کے مخالف کریں تو خنزیر کھانے جیسا۔
آپ کسی دن وقت نکال کر سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس کا چکر لگائیں آپ کو پتہ چلے گا کہ کس لیڈر اور جماعت کے حامی بدزبانی اور ننگی گالیوں کو ہتھیار بنائے مخالفوں پر حملے کرنے میں پیش پیش ہیں۔ بدزبانوں کے اس لشکر جرار کو جب کلٹ کہا جاتا ہے تو ان کے ہمدرد ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ سارے کام 1988ء کے بعد مسلم لیگ (ن) جمع آئی جے آئی نے بھی تو کئے تھے۔ بالکل کئے تھے مگر کیا مسلم لیگ (ن) کو اگر ڈیڑھ دو عشروں بعد یہ سمجھ میں آہی گیا تھا کہ سیاسی مخالفت میں بدزبانی و دشنام طرازی گندگی کو رزق بنانے جیسا ہے تو آپ نے گندگی کو رزق ضرور بنانا ہے؟
اس پر جواب ملتا ہے کہ مروجہ سیاست میں فروخت یہی ہوتا ہے۔ مطلب جس مال کی فروخت ہورہی ہے اس کی نئی دکان کھول لینا سیاسی و کاروباری عقل مندی ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، یہ سطور لکھتے ہوئے خبر ملی کہ لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے قافلے پر حملہ ہوا ہے۔ خبر کی تصدیق کے لئے مختلف نیوز ایجنسیوں اور چینلز کی ویب سائٹس دیکھتے ہوئے دو تین بھگوڑے یوٹیوبرز کے ارشادات پر نگاہ پڑی یہ سبھی قاضی فائز عیسیٰ کے قافلے پر حملے کو وقت کا فیصلہ قرار دے رہے تھے۔
سوال یہ ہے کہ یہی یوٹیوبرز اور کلٹس و بعض اہل صحافت جن حاضر اور ریٹائر ججز کو انصاف اور تبدیلی کا ہیرو بناکر پیش کرتے آرہے ہیں اگر خاکم بدہن ان کے ساتھ قاضی فائز عیسیٰ جیسا سلوک ہو تو یہ انصاف جمہوریت اور آزادی پر بزدلانہ حملہ تو قرار نہیں پائے گا؟
ہماری دانست میں بھگوڑے یوٹیوبرز وغیرہ کا مسئلہ روزی روٹی ہے لیکن وہ اہل صحافت جو اسلامی اقدار و تعلیمات پر بظاہر جان چھڑکتے رہتے ہیں وہ معاشرے میں در آئی خرابیوں کی صرف اس لئے کیوں مذمت نہیں کرتے کہ ان خرابیوں کو تازہ بڑھاوا دینے والے عمران خان کے حامی ہیں۔
بدقسمتی یہی ہے کہ ہم اس تلخ حقیقت سے نگاہیں چراتے ہیں کہ اختلاف رائے پر نفرت کے کوڑے برسانے کی سوچ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اس تاریخ سے عطا ہوئی جسے ہمارے ہاں تاریخ اسلام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ان سطور میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے یوٹرنز کی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں ہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ آجکل پوری تحریک انصاف اس امید پر ہے کہ نومبر میں ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات جیتے گا تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہاتھ پائوں جوڑ کر عمران خان کو رہا کردے گی۔
پی ٹی آئی کے ایک تازہ انصافی رکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ نے تو اس حوالے سے لمبی ہی چھوڑدی۔ کھوسہ ماضی میں سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے ٹھیکیدار بھائی کے لئے کام کرنے والی ماڈل ایان علی کے وکیل تھے تب انصافی انہیں ایان علی کا بروکر اور آصف زرداری کو ایان علی کا غیر اعلانیہ شوہر قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔
ماضی کا بروکر آجکل تبدیلی بھرے انقلاب کے لشکر میں شامل ہے۔ معاف کیجئے گا ذکرِ کھوسہ یونہی درمیان میں آگیا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی سیاست بٹوارے کے پہلے دن سے آج تک نفرتوں کے دھندے پر چلتی آرہی ہے چار مارشل لائوں کے دوران بھی یہ دھندہ خوب چلا۔ اچھا سیاست اور سیاسی جماعتوں کو کیا دوش دیں ہمارے ہاں مذہبی اخلاقیات کی علمبردار کہلانے والی مختلف مسالک کی سیاسی و تبلیغی تنظیموں نے بھی مخالفین بارے بدزبانی، فتوئوں اور توہین کے راگوں سے سر تن سے جدا کی سوچ کو پروان چڑھایا۔
خود کو انبیا علیہم السلام کے وارث کے طور پر پیش کرنے والے مسیتڑ مولویوں کی منبر پر زبان دانی کے مظاہروں کو دیکھ سن کر لوگ ان کے ساتھ مذہبی عقائد سے بھی فاصلہ رکھنے لگے ہیں مزید مہربانی سوشل میڈیا نے کی۔
مثال کے طور پر حال ہی میں پاکستان کا سرکاری دعوت پر (میں سرکاری دعوت کی وجہ اب تک نہیں سمجھ پایا) دورہ کرنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی علمِ تقابل ادیان کا جس طرح بھانڈا پھوٹا اس نے ان لوگوں کو حیران کردیا جن کا خیال تھا کہ رٹو طوطوں کا علم مناظرہ ہمالیہ کی طرح بلند اور مضبوط ہوتا ہے حالانکہ مناظرہ باز عالم نہیں ہوتے علم تو حلیمی عطا کرتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ سیاست و سماج اور علم و ادب کے مختلف الخیال اہل دانش کو چاہیے کہ چپ کا روزہ توڑ کر نفرتوں کے کاروبار کو سیاست اور تبلیغ دین کا نام دینے والوں کا محاسبہ کریں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی نقصان اتنا زیادہ ہوگا۔