Monday, 04 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bara Adab Sirf Abnormal Log Likh Sakte Hain?

Bara Adab Sirf Abnormal Log Likh Sakte Hain?

میرا گزشتہ کالم کتابوں کے مجذوبوں کے بارے میں تھا تو بارے کتابوں کے بھی کچھ بیاں ہو جائے تو چنداں مضائقہ نہیں البتہ کوئی سو جھوان یعنی فلسفی نما شخص بجا طور پر معترض ہو سکتا ہے کہ اگر یہ ادیب حضرات کتابیں نہ لکھیں تو ایسے کتابوں کے مارے لوگ مجذوب ہونے سے بچ جائیں اور وہ بھی دیگر لوگوں کی مانند نہائت کامیاب اور باشعور حیات بسر کر سکیں تو سارا قصور ادیبوں کا ہے کہ یہ کتابیں نہ لکھیں تو لوگ پاگل نہ ہوں اور سکھ چین کی زندگی کے مزے لوٹیں۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ کتابیں لکھنے والے بھی تو نارمل لوگ نہیں ہوتے۔ وہ بھی مجذوب ہوتے ہیں۔ وہ اس لکیر کے ذرا ادھر ہوتے ہیں، لکیر کے پار پاگل پن کا جہان خبط آباد ہوتا ہے اور کئی بار وہ اس لکیر کے پار بھی چلے جاتے ہیں اور تب ان کے نوک قلم سے شاہکار تحریروں کے جھرنے پھوٹنے لگتے ہیں۔ میں خود یقین رکھتا ہوں کہ ابنارمل لوگ ہی عظیم ادب تخلیق کرنے پر قادر ہوتے ہیں بلکہ میں شائد ذکر کر چکا ہوں کہ میں نے کسی انٹرویو میں کہا کہ ایک شریف آدمی بڑا ادیب نہیں ہو سکتا تو "داستان سرائے" میں ایک دعوت کے دوران اشفاق احمد میری بیگم سے کہنے لگے"لو بھئی میمونہ تمہارا خاوند مجھے بڑا ادیب نہیں مانتا"۔ تو میں نے خان صاحب سے کہا کہ حضور میں آپ کو بڑا ادیب تو مانتا ہوں لیکن ایک روائتی شریف آدمی نہیں مانتا اگر پسند فرمائیں تو میں آپ کی تحریروں میں سے کچھ حوالے دے سکتا ہوں خاص طور پر "سفر در سفر" میں جانوروں کی پرائیویٹ زندگیوں کے بارے میں جو تفصیل درج ہے تو اشفاق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔ !ادھر تمہاری آپا بانو قدسیہ بہت مزیدار کباب تیار کر رہی ہیں جائو ان سے لطف اٹھائو۔ بہرحال حسب عادت ایک مرتبہ پھر اپنے کالم کو ان کتابوں کے لئے وقف کرتا ہوں جو پچھلے تین چار ماہ سے میری رفاقت میں رہیں۔ انسانوں کی مانند کچھ تو بہت عمدہ رفیق ثابت ہوئیں۔ کچھ کو میں نے نیم دلچسپی سے پڑھا اور چند ایک سے ظاہر ہے اپنی کم علمی کے باعث بیزار ہوا اور راستے میں چھوڑ دیا۔ ان میں سے ایک ناول میرے عزیز دوست ایچ ایم نقوی نے ایک مدت کے بعد لکھا ہے اور دیر آید درست آید کے مقولے پر پورا اترتا ہے۔ نقوی کا پہلا ناول"ہوم بوائے" ایسا تھا کہ اس نے کیا پاکستان کیا انگلستان وغیرہ میں دھوم مچا دی۔ میں اسے ہمیشہ چھیڑتا تھا کہ نقوی ایک ناول تو کوئی بھی شخص لکھ سکتا ہے۔ یہ دوسرا ناول ہوتا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ وہ واقعی ایک ناول نگار ہے یا پہلے اس کا فلوک لگ گیا تھا، اس ناول کا نام نقوی کی شخصیت کی مانند گنجلک ہے یعنی"دے سیلیکٹڈ ورکس آف "عبداللہ دے کوسیک" اور یہ ثابت کرتا ہے کہ نقوی واقعی ایک بڑا ناول نگار ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار کراچی کا شہر ہے۔ وہ کراچی جو کب کا معدوم ہو چکا ہے صرف اس کی پرچھائیاں کہیں کہیں بال کھولے سو رہی ہیں۔ نقوی نے انہی پرچھائیوں کو بیدار کر کے ان کے بالوں میں تخلیق کی کنگھی کر کے انہیں پھر سے سنوارا ہے۔ وہ کہتا ہے"کہا جاتا ہے کہ شہروں کی بنیاد خدا۔ بادشاہ اور جری بہادر رکھتے ہیں لیکن کراچی شہر کہانیوں سے تخلیق ہوا ہے"مجھے یہاں ایک قول بری طرح یاد آ رہا ہے جو نیو یارک پبلک لائبریری کی ایک گلی کے فٹ پاتھ پر کندہ ہے کہ یہ کائنات ایٹم کے ذروں سے نہیں کہانیوں سے تخلیق ہوئی ہے۔ نقوی نے "ہوم بوائے" کے طرز بیاں کو دہرایا نہیں اس ناول کے لئے ایک نئی طرح ایجاد کی ہے۔ مجھے تو اس ناول کے فٹ نوٹس بھی ایک متوازی ناول کی مانند دلچسپ لگے۔ جان فری مین کا کہنا ہے کہ نقوی نے یہ ناول لکھ کر ادب کی دنیا میں ایک دھماکہ کر دیاہے۔ دوسرے ناول کا مصنف مجھے اس لئے بھی عزیز ہے کہ وہ میرے دوست اور بزرگ محمد خالد اختر کا بیٹا ہے خالد صاحب کے شاہکار خطوط جو انہوں نے میرے نام لکھے۔ شائع ہو چکے ہیں۔ ہارون خالد اختر کا ناول"میلوڈی آف اے ٹیئر یعنی" ایک آنسو کا گیت" ایک نہائت متاثر کن تحریر ہے۔ میں نے اسے مکمل طور پر پڑھا اور مکمل طور پر لطف اندوز ہوا۔ عام طور پر بڑے باپ کے بیٹے ان کے سائے سے باہر آ کر خودمختار ذہن کی زندگی بسر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن ہارون کو اپنے باپ کے سہارے کی قطعی کوئی حاجت نہیں۔ وہ ایک اہم ناول نگار کے طور پر اپنے قد سے کھڑا ہے۔ البتہ اسے بھی اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لئے دوسرا ناول لکھنا ہو گا ورنہ وہ ایک حادثاتی ناول نگار کہلائے گا۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے افریقی ناول نگار بن اوکری کا ایک ناول "بھوک زدہ روڈ" پڑھنے کے بعد لکھا تھا کہ میں کیسا بدقسمت ہوں کہ آج تک بن اوکری کی تحریر کے جادو سے بے خبر رہا۔ وہ یقینا اس عہد کے عظیم ناول نگاروں میں شمار کرنے کے لائق ہے ان دنوں میں نے اس کا ایک ناول "دے ایج آف میجک" پڑھا یعنی "جادو کے زمانے" اور یقین کیجئے اس ناول میں ایک ایسا سحر ہے جو پڑھنے والے کو گنگ کر دیتا ہے۔ تمام ابواب مختصر ہیں اور ہر باب مکمل طور پر ایک کہانی ہو سکتا ہے۔ میں نے اس طرز تحریر کا کوئی اور ناول نہیں پڑھا۔ بن اوکری کو اگر میں ایک استاد نہ مانوں تو نقصان میرا ہو گا۔ ٹائمز نے اس ناول کے بارے میں کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ ایک خوابناک جدید پریوں کی کہانی!آپ شاید آگاہ ہوں کہ پچھلے برس کا مین بُکر پرائز جو ادب کی دنیا کا سب سے بڑا انعام گردانا جاتا ہے آئر لینڈ کی اینا برنز کے ناول"ملک مین" کو دیا گیا تھا۔ میں نے اس انعام کی مرعوبیت کے زیر اثر"ملک مین"کو نہایت احترام سے شروع کیا۔ میں ایک شاہکار سے متعارف ہونے کو ہوں لیکن بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ یقینا ادب کی دنیا میں بھی سفارشیں چلتی ہیں۔ ورنہ یہ ناول تو تخلیق کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ نہائت معمولی اور بیزار کن۔ اردو کے کئی نئے ناول نگار اس آئرش خاتون سے کہیں بہتر لکھتے ہیں۔ آپ اگر برصغیر کے ان ادیبوں سے واقفیت رکھتے ہیں جنہوں نے انگریزی میں ناول لکھ کر بے پناہ شہرت حاصل کی تو آپ وکرم سیٹھ کے نام سے بھی واقف ہوں گے جنکے پہلے بہت ضخیم ناول "دے سوٹ ایبل بوائے" نے خاص طور پر مغرب میں دھاک بٹھا دی بلکہ ایک نقاد نے اسے ناول نگاری کی بائبل ٹھہرا دیا۔ بہت ہی معمولی اور بور ناول تھا میں لاکھ کوشش کے باوجود خون کے گھونٹ پی پی کر بھی پورا نہ پڑھ سکا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے معیار پر پورے نہ اترے۔ لیکن اس کے دوسرے ناول"این ایکول میوزک" نے میرے سب شکوے دور کر دیے کہ یہ واقعی ایک شاندار ناول تھا۔ کلاسیکی مغربی موسیقی کی بھی ایک کلاسیکی صنف"چیمبر میوزک" نام کی ہے۔ یعنی یہ پکے راگوں کا بھی پکا راگ ہے۔ دو تین موسیقار یہ بڑے بڑے ستار نما سازوں پر جھکے تاروں پر گز پھیرتے ایسی اکتا دینے والی روں روں موسیقی بجاتے ہیں کہ انسان خودکشی پر قائل ہو جاتا ہے۔ وکرم سیٹھ نے مغربی کرداروں کے ساتھ چیمبر میوزک کے حوالے سے ایسی شاندار تحریر لکھی ہے کہ میں نے خود ایک مرتبہ پھر چیمبرمیوزک کو سننے کی کوشش کی اور میں اس سے لطف اندوز ہوا چنانچہ میں نے وکرم سیٹھ کاایک پرانا سفر نامہ"فرام ہیون لیک" پڑھنا شروع کر دیا کہ دیکھیں سیٹھ صاحب سفرنامہ میں کیا کمال دکھاتے ہیں، اس لئے بھی کہ میں خود سنکیانگ کی طویل مسافتیں طے کر چکا تھا۔ لیکن سَوری سیٹھ صاحب آپ کے اندر آوارگی کی وہ حس موجود نہیں ہے۔ (جاری)

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.