کیا آکٹاویو پاز ایسے شاعر کے لیے کارلوس فونٹس ایسے ناول نگار کے لیے فریدہ کوہلو ایسی خبطی مصور ہ کے لیے، مارلن برانڈو کی فلم "ویوا زچال" کیلیے، ایک سومبریروہیٹ کے لیے، آگ کے ایک بوٹ کے لیے، قدیم مایا تہذیب کے لیے اور ٹکیلاشراب کے ایک گھونٹ کے لیے، میکسیکو کی جانب پرواز کرتے جانا جائز ہے۔ شاعری، ریت، خون اور انقلاب کی سرزمین کی جانب سفر کرنا جائز ہے۔
ہاں جنوبی امریکہ کا رُخ کرنا پہلی بار اور میکسیکو ایسے دھوپ بھرے ویرانے کی جانب چل دینا جائز ہے اگر.آپ کے دل کے صحرا میں شاعری کے ببول کا ایک پھول کھلتا ہے۔ نثرنگاری کا معجزہ آسمانی صحیفوں کی قربت میں لے جاتا ہے۔ مصوری کے سب رنگ آپ کے بدن کے کینوس پر نقش ہیں۔ مارلن برانڈو کی اداکاری کی تاثیر آپ کی رگوں میں رواں ہے۔ زندگی کی کڑی دھوپ میں آپ کو ایک سو مبریرو ہیٹ درکار ہے۔ آپ اپنی حیات کی کڑواہٹ کو آگ کی ایک بڑھیا کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر آپ بقیہ دنیا سے تب منقطع جنوبی امریکہ میں جنم لینے والی عظیم مایا تہذیب کے تعمیر کردہ اہرام دیکھنا چاہتے ہیں اور ٹکیلا شراب کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتے ہیں جو بقول منٹو بدن میں جہاں جہاں سے گزرتی ہے انقلاب زندہ باد دیکھتی چلی جاتی ہے۔ صرف تب جب آپ کے ذہن میں ایسے فتور بھرے ہیں میکسیکو کا سفر جائز ٹھہرتا ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اگر میں آرلینڈو کے جھیلوں کے شہر میں عینی کے ہاں ایک پرمحبت، پر آسائش اور بے پرواہ زندگی بسر کر رہا تھا اور میں نے بالآخر گھر کے پچھواڑے میں واقع گولف کورس میں ایک سیاہ بھالو کو ٹہلتے دیکھ لیا تھا، اس کا پیچھا کرکے اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کر چکا تھا تو بیچ میں میکسیکو کہاں سے آ گیا۔ ویسے ایک عجب سانحہ درپیش ہے کہ میں صحیح معنوں میں میسیکو نہیں جا رہا تھا لیکن مجھے یہ کہنے میں بھی تامل ہو گا کہ میں واقعی میکسیکو جا رہا تھا چونکہ میں خود بھی اُلجھا ہوا ہوں اس لیے میرے بیانیے سے آپ بھی اُلجھ تو گئے ہوں گے۔ یہ اُلجھن سُلجھ تو جائے گی لیکن ذرا منتظر رہنا پڑے گا کہ پردہ اٹھنے پر کیا آشکار ہو گا۔
ہسپانوی زبان کا شمار دنیا کی دوچار بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ نہ صرف ہسپانیہ، پرتگال اور پورا جنوبی امریکہ اسی زبان میں محبت کرتا ہے، نفرت کرتا ہے اور شاعری کرتا ہے بلکہ انگریزی اور فرانسیسی شاعری کے مقابلے میں ہسپانوی شاعری میں جذبوں کی شدت کے الائو بھڑکتے ہیں۔ یہ بیباک، بے دھڑک اور کسی حد تک وحشی ہے اور اس میں اداسی کے گہر ے اندھے تالاب ہیں اور فنا کی سیاہی کی تصویریں مدھم ہوتی ہیں۔ ہسپانوی شاعری کے بارے میں مجھے کچھ زعم نہیں ہے کہ میں اس کی گہرائی میں اترا ہوں البتہ سپین کے گارلیالور کا اور چلی کے پابلونرودا کو مکمل طور پر پڑھا ہے اور ان کی شاعری ایک خاص اداس انداز میں میری نثر پر اثر انداز ہوئی ہے۔ "اُندلس میں اجنبی" میں لورکا کے بہت حوالے اس لیے بھی موجود ہیں کہ لورکااپنے مورش ماضی پر فخر کرتا تھا۔ آکٹاویو پاز ان دونوں سے مختلف کیفیتوں کا شاعر ہے۔ اس کی تمثیل نگاری بے حد منفرد اور دل کو چھونے والی ہے۔ پاز کی سب سے مشہور نظم "سن سٹون" یعنی "سورج پتھر" ہے اور یہ ایسی بڑی نظم ہے کہ اسے میرے پندرہ برس کے نواسے نوفل نے بھی پڑھ رکھا ہے۔ میں اس کے چیدہ چیدہ حصے دیگر نظموں کے علاوہ انگریزی کے ترجمے کو سامنے رکھ کر ان کا بہت ہی آزاد اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ یاد رکھئے پاز بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والا شاعر نہیں ہے۔
"بلور سے تراشا ہوا بید مجنوں، پانی سے بنا ایک سفیدہایک فوارے کا ستون جس پر ہوا کی چادر تنی ہےایک درخت جس کی جڑیں گہری ہیں اور جو رقص کرتا ہےمُڑتا ہوا ایک دریا جو بل کھاتا ہے۔
آگے بڑھتا پھر پیچھے ہوتا ہے۔ چکر لگا کر ہمیشہ کے لیے پہنچ جاتا ہے، ایک ستارے کا پرسکون راستہ، یا آہستگی سے پھوٹتا ایک جھرنا، بند پلکوں کے سکوت میں پوشیدہ پانی، تمام شب بہتا ہوا۔ اور مستقبل کی پشین گوئیاں کرتا.ایک سرسبز سلطنت جسے زوال نہیں.آنکھوں کو چندھیا دینے والے سراب پروں والے۔ جب یہ پرکھلتے ہیں آسمان کی بلندی پردنوں کے گھنے پن میں ایک سفر کا راستہ، مستقبل کے دندکھوں کی دمک، ایک پرندے کی مانند چمکتی ہوئی۔ جو ایک جنگل کو حنوط کر دیتی ہے اپنے گیت سےوہ پرندہ ان شاخوں میں جو اوجھل ہوتی جاتی ہیں روشنی کے لمحے جن پر پرندے چونچیں مارتے ہیں"جیسے بارش کو سنتے ہیں"مجھے سنو جیسے بارش کو سنتے ہیںنہ توجہ سے اور نہ بے توجگی سےقدموں کی مدھم چاپ، باریک پھوارپانی جو کہ ہوا ہے، ہوا جو کہ وقت ہےدن ابھی ڈھل رہا ہے اور رات ابھی تک نہیں آئیدُھند کی بھول بھلیاں، کونے کے موڑ پروقت کی بھول بھلیاں، موڑ پر اس وقفے میںمجھے سنو جیسے بارش کو سنتے ہیںسنے بغیر سنو جو میں کہتا ہوںگفتگو کرنا، عمل کرنامیں، جو میں دیکھتا ہوں جو میں کہتا ہوںمیں اس کے درمیان میںجو میں کہتا ہوں اور جو میں خاموش رہتا ہوںاس کے درمیان میںجو میں خاموش رہتا ہوں اور جو میں خواب دیکھتا ہوںاس کے درمیان میںشاعری، انکار اور اثبات کے درمیان پھلتی ہوئیجو میں خاموش رہتا ہوں، خاموش رہتا ہےجو میں کہتا ہوں، خواب دیکھتا ہےجو میں بھول جاتا ہوں، وہ میں نے کہا نہیںیہ تو ایک عمل ہے، عمل ہے، جو کہا جاتا ہےشاعری بولتی ہے اور سنتی ہےیہی حقیقت ہےاور جونہی میں کہتا ہوں کہ شاعری حقیقت ہےیہ واہمہ ہو جاتی ہےکیا یہ اب زیادہ حقیقت ہو گئی ہے؟ ٭٭٭(جاری)