پاکستان میں ٹیکس کلچر بڑھانے کی بہت بات کی جاتی ہے لیکن عملی اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے۔ آجکل پھر حکومت کو ٹیکس بڑھانے کا بخار چڑھا ہوا ہے۔
اسی لیے ایسے اقدمات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے پاکستان کا ٹیکس کلچر بڑھایا جا سکے۔ اسی مقصد کے لیے تاجروں کو پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش شروع کی گئی ہے، دوسری طرف سے تاجروں نے بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔
اسلام آباد میں دھرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پہلے بھی جب حکومت نے تاجروں پر ٹیکس کے حوالے سے سختی شروع کی، تاجروں نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا۔ احتجاج تو اتنا خاص نہیں تھا لیکن حکومت ڈر گئی تھی اور تاجروں کے مقاصد بھی پورے ہو گئے تھے۔
اس لیے اب بھی جب حکومت تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات اٹھانے جا رہی ہے، انھوں نے دوبارہ ایک کمزور احتجاج کیا ہے۔ جس کے بعد دوبارہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت ٹیکس نہ دینے والوں سے مذاکرات کیوں کر رہی ہے۔
تاجروں کو امید ہے کہ ایک ایسی حکومت جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہو رہی ہے، وہ تاجروں کے احتجاج کے سامنے نہیں کھڑی ہو سکے گی۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان میں اگر ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے تو تاجروں کو ٹیکس نظام میں لانا ہوگا۔ تا ہم صرف تاجر ہی پاکستان کے ٹیکس نیٹ سے باہر نہیں ہیں۔
پاکستان کے ڈاکٹرز کو بھی جب تک ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا، ملک کا ٹیکس کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں جب تک سرکاری ملازمین ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس بند نہیں کی جائے گی تب تک ہمارا صحت کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سرکاری اسپتال ٹھیک کام نہیں کر سکتے۔ جس نے پرائیوٹ پریکٹس کرنی ہے وہ سرکاری نوکری چھوڑ دے۔ جس نے سرکاری نوکری کرنی ہے وہ پرائیوٹ پریکٹس چھوڑ دے، سادہ اصول ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں یہی اصول ہے۔
آج میں ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت ملک میں بڑی دکانوں کو پوائنٹ آف سیلز بنا رہی ہے اور وہاں ایف بی آر کا خصوصی ٹیکس نظام لگا رہی ہے تا کہ ان دکانوں سے مکمل ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے۔
میری تجویز ہے کہ کم از کم پروفیسرز کے پرائیوٹ پریکٹس کلینکس کو بھی ایف بی آر کا پوائنٹ آف سیل بنایا جائے۔ آپ سب کو علم ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں ایک عام پروفیسر کی فیس تین ہزار روپے ہو چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ دور میں یہ فیس پندر سو روپے تھی۔ لیکن وہ کرپٹ دور تھا اسی لیے پروفیسرز نے مریض دیکھنے کی فیس بھی کم رکھی ہوئی تھی۔
یہ ایماندار دور ہے اسی لیے پروفیسرز نے مریض دیکھنے کی فیس بھی دگنی کر دی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی فیس ریگولیٹ کرنے کا بھی کوئی میکنزم نہیں ہے۔ کسی بھی حکومت نے آج تک اس ضمن میں کوئی قانون سازی اور ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قواعد بھی نہیں بنائے ہیں۔
اس لیے یہ ڈاکٹر مریضوں کو دیکھنے کے لیے اپنی فیسیں بڑھانے کے لیے مکمل آزاد ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد حقیقی معنوں میں آزادی صرف ان کو ہی ملی ہے ورنہ باقی سب طبقے تو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں محکوم ہیں۔ بہر حال جو پروفیسرڈاکٹرز ایک مریض کو دس منٹ دیکھنے کے لیے آجکل تین ہزار روپے لے رہے ہیں، وہ اپنی اس فیس پر ایک روپیہ ٹیکس دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ اس کی کوئی پکی رسید دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ بلکہ نوے فیصد سے زائد کلینک میں تو رسید دینے کا رواج ہی نہیں ہے۔
اگر قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ان کی تمام نا جائز آمدن ہے کیونکہ وہ اس پر ٹیکس نہیں دیتے ہیں۔ اسی طرح جونئیر ڈاکٹرز بھی اپنے کلینک میں ہزار روپے سے زائد ہی فیس لے رہے ہیں۔ لیکن وہاں بھی اس فیس کی رسید دینے کا کوئی رواج نہیں ہے اور نہ ہی مریض رسید مانگنے کا حقدار ہے۔ اگر آپ رسید مانگیں گے تو ڈاکٹر صاحب آپ کو دیکھنے سے انکار کر دیں گے۔
آخر کیوں ہم نے ڈاکٹرز کو ملک میں مقدس گائے کا درجہ کیوں دیا ہوا ہے۔ کیوں ہر حکومت ان سے ٹیکس لینے سے ڈرتی ہے۔ انھیں عوام کی جیبیں کاٹنے کی اجازت ہے لیکن ان سے ٹیکس لینا کیوں حرام سمجھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹرز کی پرائیوٹ پریکٹس پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ ڈاکٹروں کو ہر مریض سے لی جانے والی فیس پر ٹیکس دینا لازمی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹروں کے کلینکس کو پوائنٹ آف سیل قرار دیا جائے۔ ان پر ایف بی آر کے کمپیوٹر لگائے جائیں۔ جو ٹیکس نہیں دینا چاہتا اس کو پرائیوٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں حکومت کو زیادہ سے زیادہ فیس کی حد مقرر کرنی چاہیے۔ عوام کو لوٹنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔ لیکن اگر حکومت لوٹنے کی کوئی حد مقرر نہیں کرنا چاہتی اور ڈاکٹروں کو فیس لینے کی کھلی چھوٹ دینا چاہتی ہے تو کم از کم اس پر ٹیکس لینا تو شروع کر دیں۔ اگر عوام کا بھلا نہیں کرنا چاہتی تو کم از کم اپنا بھلا تو کر لے۔
پاکستان کی رئیل اسٹیٹ میں اس وقت سب سے زیادہ پیسہ ڈاکٹروں کا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اوور سیز کا زیادہ پیسہ ہے۔ یہ ڈاکٹر اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لیے رئیل اسٹیٹ کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ منی لانڈ رنگ بھی ڈاکٹر ہی کرتے ہیں۔
ہر سال فارماسوٹیکل کمپنیوں سے رشوت میں بیرونی دورے لیتے ہیں۔ اور ان دوروں کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ویسے تو ان ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بھی ڈ اکٹر بن کر ان کے کلینک پر ہی بیٹھ جائیں۔ لیکن جو بچے ڈاکٹر نہیں بن سکتے انھیں بیرون ملک سیٹ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے فیسوں کے ذریعے اکٹھا کیا گیا کالا دھن سفید کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان پر ٹیکس نہیں لگا سکتے۔ ان کو ٹیکس نیٹ میں لانا کیوں ناممکن رہا ہے۔
کورونا میں ان ڈاکٹروں نے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو دیکھنا بند کر دیا تھا۔ یہ کورونا کے خوف سے مریضوں کے پاس بھی نہیں آتے تھے۔ لیکن کسی ڈاکٹر نے بھی کورونا کے خوف سے ایک دن بھی اپنا کلینک بند نہیں کیا۔ وہاں مریضوں سے لوٹ ماری جاری رکھی۔ بلکہ سرکاری اسپتال بند ہونے سے ان کی چاندی ہو گئی۔ سب ان کے پاس جانے پر مجبور تھے۔ سرکاری اسپتالوں میں کورونا کی وجہ سے با قی بیماریوں کا علاج بند تھا لیکن ان کی دکانیں کھلی تھیں۔ صبح سرکاری اسپتال میں کورونا تھا۔ اور شام کو پرائیوٹ کلینک میں کورونا نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں تاجروں کے ساتھ پاکستان کے ڈاکٹروں کی آمدن کی ایک ایک پائی کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کا ٹیکس کلچر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹروں کا مافیا تاجروں سے مضبوط ہے۔ اس لیے تاجروں سے ٹیکس لینے کی بات تو کبھی کبھی شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کرنا بھی گناہ سمجھ جاتا ہے۔ ان کی لوٹ مار کی بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک طرف تو یہ ڈاکٹر خود اتنی فیس لیتے ہیں اور ساتھ ہی ان کا کسی نہ کسی لیبارٹری سے کمیشن طے ہو تا ہے۔ یہ مریضوں کو مہنگی دوائیو ں کے ساتھ ٹیسٹوں کی بھی ایک لمبی فہرست پکڑادیتے ہیں۔ اس پر پھر لکھوں گا۔ آج صرف اتنی درخواست ہے کہ ان سے ٹیکس لیا جائے۔