آجکل پھر پنجاب کی تقسیم کا شور ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی بات کی جارہی ہے۔ ادھر بہاولپور صوبہ بنانے کی ضد بھی ہے۔ ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہو رہا ہے کہ انتظامی خود مختاری کے نام پر جو جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے، اس کا سیکریٹریٹ کہاں ہوگا؟ ملتان والے بہاولپور کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور بہاولپور والے ملتان کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سیکریٹریٹ کے قیام پر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے، خدانخواستہ صوبہ بننے لگا تو کیا ہوگا۔ ایک ماحول بنایا گیا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کر کے جنوبی پنجاب میں ایک صوبہ بنانا ضروری ہے۔ خواب دکھایا جا رہا ہے کہ نیاصوبہ بنتے ہی سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور ہر طرف دُودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔
پنجاب کی تقسیم پر سیاست کی جا رہی ہے مگر سندھ، بلوچستان اور کے پی کی تقسیم کی بات کرنا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ جس بنیاد پر پنجاب کی تقسیم کی بات کی جا رہی ہے اس بنیاد پر دوسروں صوبوں کی تقسیم کیوں جرم ہے؟ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے۔ پنجاب کی تقسیم کے حامی ایک یہ دلیل دیتے ہیں کہ دیکھیں بھارتی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہم کیوں نہیں کرتے۔ ہمارا پنجاب بہت بڑا ہے، اسے تقسیم کر دینا چاہیے۔ اگر تحقیق کی جائے تو بھارت نے بھارتی پنجاب کی تقسیم لسانی بنیادوں پر کی ہے۔ اب جو پنجاب بچ گیا ہے وہاں صرف پنجابی زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ جب کہ بھارتی پنجاب سے نکلنے و الے دو صوبوں ہریانہ اور ہماچل میں ہندی، گوجری، ڈوگری اور پہاڑی بولنے والے رہتے ہیں۔
متحدہ پنجاب میں بھی وہ ایسے ہی رہ رہے تھے کہ مکمل طور پر علیحدہ علاقوں میں مقیم تھے۔ ہمارے پنجاب کی طرح نہیں کہ ایک ہی محلے اور شہر میں مختلف لسانی گروہ آباد ہوں۔ لہذا بھارت کی مثال یہاں مسلط نہیں کی جا سکتی۔ البتہ کے پی کے، بلوچستان اور سندھ پر زیادہ منطبق ہوتی ہے جہاں دو دو زبانیں بولنے والے علیحدہ علیحدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ کے پی کے میں پشتو اور ہندکو (شمال میں گوجری، کھوار، چترالی اور دیگر کئی زبانیں بھی ہیں )، بلوچستان میں بلوچی، براہوی اور پشتو جب کہ سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والے علیحدہ علیحدہ علاقوں میں موجود ہیں۔ کیا بھارتی مثال کو سامنے رکھ کر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کو دو دو حصوں میں تقسیم نہیں کر دینا چاہیے؟
ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پنجاب بہت بڑا ہے، دُوسرے صوبے چھوٹے ہیں۔ کیسی فضول دلیل ہے۔ ہر ریاست میں کچھ صوبے بہت بڑے اورکچھ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ صرف دو مثالیں حاضر ہیں، ساؤتھ افریقا کاصوبہ ناردرن کیپ372، 889 کلومیٹر رقبہ رکھتا ہے جو کل ملکی رقبے کا 30.5 %ہے۔ اسی ملک کا سب سے چھوٹاصوبہ ویسٹرن کیپ ہے جوکل ملکی رقبے کا صرف1.5% ہے۔ (دونوں میں تناسب 1:20کاہے) بھارت کا بڑا صوبہ مدھیہ پردیش ہے جس کا رقبہ443446 مربع کلومیٹر جب کہ سب سے چھوٹا سکم صرف7096 کلومیٹر ہے۔ بھارت کا بڑا صوبہ، چھوٹے صوبے سے 62 گنا بڑا ہے۔ پاکستان میں صورتحال تو بہت بہتر ہے۔
پنجاب کی تقسیم کی ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چھوٹے صوبے کا انتظام بہتر ہوتا ہے، بڑے صوبے کا انتظام مشکل ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا چھوٹا صوبہ لیکن پسماندہ ترین ہے۔ اگر چھوٹا ہونا ہی ترقی کی دلیل ہے تو پھر ان دونوں کو سوئٹزر لینڈ ہونا چاہیے تھا۔ خیبر پختونخوا میں بھی ہندکو ریجین بہتر ہے۔
تقسیم کی ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کو معمولی کاموں کے لیے لاہور کے چکر لگانے پڑتے ہیں جو بہت دُور ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سے کام ہیں جو لاہور جا کر ہی ہو پاتے ہیں؟ پاسپورٹ آفس، عدالتیں تو ضلع کی سطح پر موجود ہیں۔ عام آدمی کو دیگر کون سے کام پڑتے ہیں؟ بجلی کا بل درست کرانے کے لیے تو کوئی لاہور نہیں آتا؟ بھرتی اور ملازمتوں کے لیے بھی ملتان میں مرکز موجود ہیں۔ لاہور جیسا دل کا اسپتال (کارڈیالوجی) تو ملتان میں بھی موجود ہے۔ کیا علیحدہ صوبہ بننے سے ڈیرہ غازی خان یا راجن پور میں اسپتال اور یونیورسٹیاں بن جائیں گی؟ اسپتال اور اچھے تعلیمی ادارے بنانے کے لیے علیحدہ صوبے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ملتان کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا۔ ماضی کی بات کی جائے تو سارا ہندوستان ایک تھا۔ کیا اب دوبارہ سارا ہندوستان ایک کر لیا جائے۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ جنوبی پنجاب نئے صوبے کا مطالبہ عوام کا مطالبہ ہے۔ کیا آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت الگ صوبے کے نعرے پر جنوبی پنجاب میں جیت سکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 2013 میں جنوبی صوبے کو الیکشن ایشو بنایا، اِس الیکشن میں جنوبی پنجاب سے پارٹی کا صفایا ہو گیا۔ جب پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی بات نہیں کرتی تھی، تاج محمد لنگاہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ کر کامیاب ہوتے رہے۔ جب انھوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر علیحدہ صوبے کی بنیاد پر الیکشن لڑا تو بری طرح ہار گئے۔
تازہ ترین مثال دیکھ لیجیے۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے ن لیگ میں سے "جنوبی صوبہ محاذ" نامی گروپ پیدا کیا گیا جو صرف ایک ہفتے بعد تحریک انصاف میں ضم ہو گیا۔ اس نام سے علیحدہ ہونے والے سیاستدانوں میں سے کتنے ہیں جو الیکشن میں کامیاب ہوئے؟ اگر جنوبی پنجاب کے نام پر الیکشن میں جیت ممکن ہوتی تو یہ گروپ تحریک انصاف میں کبھی ضم نہیں ہوتا۔ جنوبی پنجاب کی پسما ندگی کی بہت بات کی جاتی ہے۔
آج تو پورے پنجاب پر جنوبی پنجاب کی حکومت ہے، دور کر لیں، پسماندگی۔ کسی نے روکا ہے۔ 1970 کے بعد پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ میں سے ایک جنوبی پنجاب سے ہی آتا رہا ہے۔ مغربی پاکستان اور پھر پنجاب میں ممتاز دولتانہ، فیروز خاں نون، عبدالحمید دستی، مشتاق گورمانی، ملک امیر محمد خان، غلام مصطفی کھر، صادق حسین قریشی، سجاد حسین قریشی، مخدوم الطاف، لطیف کھوسہ، ذوالفقار کھوسہ، رفیق رجوانہ اسی علاقے سے تھے۔ یوسف رضا گیلانی اور فاروق لغاری طاقتور وزیراعظم اور صدر رہے۔ انھوں نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کیا کیا؟
بہت شور مچایا جاتا ہے کہ بہاولپور علیحدہ ریاست تھی، اسے بحال ہوناچاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف بہاولپور ہی علیحدہ ریاست تھی؟ اس کی ہمسائیگی میں خیرپور بھی ریاست تھی جو سندھ میں ضم ہوئی، قلات، لسبیلہ اور خاران کو بلوچستان میں شامل کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں سوات، چترال اور دِیر کی ریاستیں تھیں جو اب ضلعے ہیں۔ صرف بہاولپور کی بحالی کا شور کیوں ہے؟ پھر سب ریاستوں کو الگ صوبے بنادینے چاہیے۔
ویسے کوئی یہ نہیں بتاتا کہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک نے 2016 میں اپنے صوبوں کی تعداد 22 سے گھٹا کر 13 کر دی ہے۔ اِس اقدام کا مقصد بچت کرنا ہے۔ جتنے زیادہ صوبے ہوں گے، اتنے زیادہ گورنر، وزیراعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیر، مشیر اور معاونیں خصوصی ہوں گے، اتنے ہی سیکریٹریٹ اور ان کا عملہ ہو گا جس کی وجہ سے خرچا بڑھ جاتا ہے۔ آج انٹرنیٹ کے زمانے میں دنیا کے دُوسرے کونے پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے اور حکومتی پہنچ بھی بہ آسانی ہر جگہ ہو سکتی ہے۔ آج صوبے کا بڑا چھوٹا یا دور نزدیک ہونا بے معنی ہو چکا ہے۔
یہ افواہ بھی ہے کہ کچھ طاقتور لوگ یہ منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں کہ نیاصوبہ بننے کے بعد وہاں سے پنجابی بولنے والے "آبادکاروں " کو لسانی فساد کر ا کے بھگا دِیا جائے گا۔ ایسی افواہوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ پنجاب کی سالمیت، اصل میں پاکستان کی سالمیت ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام کو تقسیم کرنے کے بجانے اپنی اصلاح کریں اور گورننس میں بہتری لائیں۔