گوادر خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہا ہے، لیکن ہمارے ملک کی سیاسی قیادت کا عمومی رویہ افسوسناک ہے۔ صرف جماعت ا سلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ جو گوادر کے حوالے سے بات کر رہی ہے۔ جس کی سیاسی قیادت، امیر العظیم اور سراج الحق، گوادر پہنچی ہے۔ اسی کے ساتھ جماعت اسلامی نے اتوار کو یوم یکجہتی بلوچستان بھی منایا ہے۔
گوادر میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ لاہور کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھ کر سمجھنا بہت مشکل ہے۔ میں نے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل امیر العظیم سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تا کہ ان سے گوادر کے حالات جان سکوں۔ وہ حال ہی میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے لیے گوادر گئے تھے۔ امیر العظیم سے میں نے پوچھا کہ بڑا مسئلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا آپ سمجھ نہیں رہے۔
گوادر اور اردگرد کے علاقے جنھیں ہم مکران ضلع کہتے ہیں کے عوام کا بنیادی روزگار کیا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو بنیادی طور پر دو طریقوں سے روزگار ملتا ہے۔ پہلا ماہی گیری ہے۔ سمندر مکران ضلع کے لوگوں اور گوادر کے لوگوں کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگر گوادر کے لوگوں سے ان کا سمندر ہی چھین لیا جائے گا تو وہ کیا کریں گے۔ میں نے کہا کیا مطلب۔
انھوں نے کہا اس وقت گوادر کے ساحلوں پر غیر قانونی ٹریلر کے ذریعے مچھلی اور سمندری حیات کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ان غیر قانونی ٹریلر کی وجہ سے ایک طرف تو سمندری حیات ختم ہو رہی ہیں دوسری طرف مقامی لوگوں کی ماہی گیری کی صنعت ختم ہو رہی ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے جو لوگ کئی نسلوں سے سمندر سے رزق کما رہے ہیں وہ ایک غیر قانونی مافیا کے ہاتھوں اپنے رزق سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس لیے گوادر میں جو ہو رہا ہے اس کو لوگوں کے روزگار کی نظر سے دیکھیں۔
امیر العظیم کی اس بات میں وزن ہے کہ گوادر کی سڑکوں پر ہزاروں لوگوں کے مظاہروں کو بیرونی سازش قرار دینے کی بجائے اس کی بنیاد پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ گوادر کی سڑکوں پر عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کو کون لایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سمندر میں جو مافیا کام کر رہا ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کو کس کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کو آج بھی مظاہرین پر الزام تراشی کر کے بچانے کی کوشش کون کر رہا ہے۔
میں نے کہا سمندر سے مچھلی پکڑنا کیسے غیر قانونی ہے۔ امیر العظیم نے کہا یہ بڑے بڑے ٹریلر کھلے پانی سے مچھلی پکڑیں۔ ساحل کے ساتھ تو مقامی لوگ پکڑتے ہیں جن کے پاس چھوٹی کشتیاں ہیں جو بڑے پانی میں نہیں جاتیں۔ ہم گوادر کو روزگار دینے کی بجائے ان سے روزگار چھین رہے ہیں۔ اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ وہ خاموش بھی رہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔
میں نے کہا یہی ایک بات ہے انھوں نے کہا نہیں وہاں کے لوگوں کے روزگار کا دوسرا بڑا ذریعہ ایران سے تجارت ہے۔ یہ سرحدی تجارت ہے۔ جو لوگ مکران نہیں گئے انھیں اندازہ نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں روزمرہ استعمال کی بنیادی چیزیں بھی ایران سے آتی ہیں۔ صابن سے لیکر کھانے پینے کی تمام چیزیں ایران سے آتی ہیں۔ یہی تجارت وہاں روزگار کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
کیا ارباب پاکستان کو اندازہ نہیں ہے کہ سرحد بند کرنے سے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ ایک طرف آپ افغان سرحد کے ساتھ تجارت کی اس لیے اجازت دیتے ہیں کہ سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگوں کا روزگار ہے۔ دوسری طرف آپ وہی حق مکران کے لوگوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا اس لیے کہ مکران کے لوگ پر امن ہیں۔
میں نے کہا امیر العظیم صاحب! اس ملک کو کسی نظام سے چلاناہے۔ جماعت اسلامی اسمگلنگ کی اجازت کی بات کر رہی ہے۔ امیر العظیم نے کہا نہیں ہم کہہ رہے ہیں جو حق افغان سرحد کے ساتھ رہنے والے قبائلی علاقوں کو حاصل ہے وہی حق مکران کے اضلاع کے لوگوں کو ملنا چاہیے۔ اس لیے جماعت اسلامی اس کو بھی کوئی غلط مطالبہ نہیں سمجھتی۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ روزگار کے مواقعے دینا ریاست کا کام ہے۔ روزگار کے مواقعے بند کرنا ریاست کا کام نہیں ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران سے آنے والی اشیا مکران ضلع سے باہر نہیں جا سکتیں۔ قبائلی علاقوں میں بھی یہی قانون ہے۔ لیکن مکران کی حد تک اجازت دینا ہوگی۔ ورنہ وہاں لوگوں میں اضطراب بڑھے گا۔
امیر العظیم کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ مکران میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے۔ اور وہ صرف دن مین چار گھنٹے آتی ہے۔ آپ گوادر میں کیسے سی پیک بنا سکتے ہیں جب وہاں بجلی اور پینے کا صاف پانی ہی نہیں ہے۔ سڑکیں بنانے پر تو پیسے لگا رہے ہیں۔ لیکن گوادر کے عوام کو بجلی پانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے تو گوادر اور پورے مکران ضلع کو نیشنل گرڈ سے جوڑ کر بجلی دی جائے اور اگر پاکستان کی بجلی گوادر کو نہیں دینی تو ایران سے ہی پوری بجلی لیکر دی جائے۔ گوادر کو اندھیروں میں رکھ کر پاکستان میں اجالوں کے خواب نہیں بنا سکتے۔
امیر العظیم کا یہ موقف بھی درست ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو فوری طور پر گوادر جانا چاہیے تا کہ وہاں کے لوگوں کو احساس ہو کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ وہاں جانے سے لوگوں کو روکنا ملکی مفاد میں نہیں ہے بلکہ ریاست کو چاہیے کہ سب کو وہاں جانے دے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بھی بہت مشکل سے گوادر پہنچے تھے۔ فلائٹ پر نہیں گئے۔ پہلے بذریعہ سڑک کوئٹہ گئے پھر وہاں سے گوادر گئے۔ 28گھنٹے کا راستہ ہے۔ لیکن وہاں سیاسی جدو جہد کو شک کی نگاہ سے دیکھنے سے حالات خراب ہونگے۔
سیاسی جماعتوں کو کام کرنے سے روکنے سے دوسرے عناصر آجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے انتہائی نامناسب حالات میں وہاں کام کیا ہے۔ ہمارے لوگ بھی مسنگ ہو تے ہیں لیکن یہ افسوسناک ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں عام آدمی سڑکوں پر ہے اور ہم توجہ نہیں دے رہے۔
گوادر کے عوام پاکستان کو پکار رہے ہیں۔ اور پاکستان ان کی بات نہیں سن رہا۔ وزیر اعظم عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں بجلی پانی نہیں تو انٹر نیٹ کیسے ہوگا۔ ان کا ٹوئٹ لوگوں تک کیسے پہنچے گا۔ اس لیے انھیں خود وہاں جانا ہوگا۔ جب حالات بہت خراب ہو جائیں گے تو جانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ مکران کے لوگوں کی بات آج نہیں سنی گئی تو کل وہ آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ آج ہم ان کی بات سنیں گے تو کل وہ ہماری بات سنیں گے۔ ورنہ دیر ہو جائے گی۔
یہ ٹریلر مافیا پاکستان سے اہم نہیں۔ یہ جو بھی لوگ ہیں۔ یہ پاکستان کے دوست نہیں۔ ان کے سرپرست بھی پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ ویسے یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر لینڈ مافیا پاکستان کا دوست ہے تو ٹریلر مافیا بھی پاکستان کا دوست ہی ہوا۔ لیکن گوادر کے لوگ تو پاکستان کے لینڈ مافیا کے ہاتھوں پہلے ہی لٹ چکے ہیں۔ اب ان کے پاس مزید کچھ کھونے کی گنجائش نہیں۔ ہم ان کی زمینیں ان سے اونے پونے پہلے ہی خرید چکے ہیں، اب وہ زمینیں بھی ان کے پاس نہیں ہیں۔