جیسے جیسے دن گززر رہے ہیں، کراچی کی محرومیاں بڑھ رہی ہیں لیکن پاکستان کے ارباب اقتدار اور کراچی کے عوام کی نمایندگی کے امین اور دعویدار خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ کراچی کا حق نمایندگی رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں، اسبملیوں میں پہنچنے کے بعد انھیں کراچی شہر کی تعمیروترقی اور عوام کو درپیش مسائل سے کوئی خاص سروکار نظر نہیں آرہا ہے۔
کراچی کے ووٹرز نے سالہا سال سے کراچی کے دعویداروں کو ہی حق نمایندگی دیا ہے۔ مہاجر نعرے کے نام پر ایم کیو ایم کو بڑی بڑی کامیابیوں سے نوازا ہے۔ لیکن مڈل کلاس سے تعلق ہونے کے باوجود مہاجر قیادت کراچی شہرکو وہ سب کچھ نہیں دے سکی جس کا کراچی حق دار تھا اور ہے۔
آج ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس کے رعب و دبدبے میں نمایاں کمی ہو گئی ہے، اس کی اسمبلی میں سیٹیں بھی کم ہو گئی ہیں، اس کے ووٹ بینک میں بھی کمی ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ حالیہ تین چار برسوں میں ہوا لیکن کراچی کے ووٹرز سوال کرسکتے ہیں کہ جب ایم کیو ایم کے پاس کراچی کا مکمل مینڈیٹ تھا تب بھی انھوں نے کراچی کے لیے کونسے آسمان سے تارے توڑ لیے تھے۔
اس لیے ایم کیو ایم کی واپسی بھی کراچی کے مسائل کا کوئی حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کراچی کے عوام کہیں نہ کہیں اپنی شہر کی سیاسی قیادت سے مایوس ہوگئے ہیں۔ یہ پرانے چہرے کراچی کے ووٹرز کے آزمائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کئی کئی بار کراچی سے الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں جا چکے ہیں۔ ادھرکراچی کے مسائل گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔
پاک سر زمین پارٹی نے بھی ایم کیو ایم کی گرتی ساکھ اور بانی ایم کیو ایم کی غلطیوں سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کی ہے، کراچی کے عوام کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ ایک بہترین متبادل ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کراچی کے عوام کے جانے پہچانے بھی ہیں۔
انھوں نے کراچی کا ایک نئے لیڈر بننے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن انھیں تاحال وہ پذیر ائی نہیں ملی جس کی انھیں توقع تھی۔ وہ آکر چھا جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ 2018میں ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ لیکن وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ انھیں چار سیٹوں کی پیشکش تھی۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ بہرحال کراچی کے لوگ ان کے پیچھے ویسے اکٹھے نہیں ہوئے جیسے توقع کی جا رہی تھی۔
تحریک انصاف کو بھی 2018میں جیسے تیسے کراچی کا ایک قابل ذکر مینڈیٹ دیا گیا۔ کراچی میں سیاسی قیادت کا خلا تحریک انصاف کو پر کرنے کاپورا موقع دیا گیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے بھی کراچی کی عوام کو سخت نا امید ہی کیا ہے۔ یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف نے 2018میں جو سیٹیں کراچی سے جیت لی تھیں، شاید وہ دوبارہ نہیں جیت سکتی ہے۔ اس کی مثال حالیہ ضمنی انتخاب ہے۔ جہاں تحریک انصاف اپنی ہی جیتی ہوئی سیٹ بری طرح ہاری ہے۔ لیکن ایم کیو ایم اور پی ایس پی بھی اس سیٹ پر کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کراچی میں سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ سیٹ پیپلزپارٹی نے جیتی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی نے حکومت میں ہونے کی وجہ سے یہ سیٹ جیتی ہے۔ کراچی میں اس کی مقبولیت میں کوئی ا ضافہ نہیں ہوا ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کبھی کراچی کے عوام کے لیے اس طرح سنجیدہ نظر نہیں آئی ہیں۔ اسی لیے کراچی کے عوام بھی ان کے لیے کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئے۔
حال ہی میں نسلہ ٹاور کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ کراچی کے لوگ بے بس نظر آئے ہیں۔ ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے ساتھ سب نے فوٹو شوٹ کرایا۔ سب نے حاضری لگوائی لیکن کسی نے بھی حقیقی معنوں میں ان کے مسئلہ حل کرانے کی کوشش نہیں کی۔ اب کیا کسی میں طاقت ہی نہیں تھی یا کسی کو ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن نسلہ ٹاور کے متاثرین کی بے یارو مدد گار وہاں سے بے دخلی بھی کہہ رہی ہے کہ کراچی کی موجودہ سیاسی قیادت کراچی کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہی ہے۔ کیا معاوضہ ملنا متاثرین کا حق نہیں ہے۔ لیکن آج تو حق کی بات کرنے کی بھی جرات نہیں ہے۔
بلڈنگ خالی ہو گئی ہے۔ لیکن یہ بلڈنگ کراچی کی سیاسی بے بسی کی عمدہ مثال ہے۔ وہ سیاسی قیادت جو 31اکتوبر منانے سے ڈرتی ہو، اس نے کراچی کا کیا مقدمہ لڑنا ہے۔ کراچی کی موجودہ سیاسی قیادت نہ تو کراچی کو درست مردم شماری کا حق دلا سکی ہے نہ ہی کراچی کے دیگر مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدہ نظر آرہی ہے۔ کیا صرف وزارتیں لینا ہی کراچی کی سیاست ہے یا کراچی کے مسائل حل کرنا بھی کراچی کی سیاست ہونا چاہیے۔
ایسے میں کراچی کو ایک نئی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ ایسی نئی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو کراچی کے عوام کو اس کا حق دلا سکے۔ درست مردم شماری کروا سکے۔ کوٹہ سسٹم ختم کرا سکے۔ کراچی اور شہری سندھ کو اس کا جائز سیاسی حق دلا سکے۔ یہ سب نا ممکن کام نہیں ہیں اور نہ ہی ناجائز کام ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ یہ نئی قیادت کیسے سامنے آئے گی۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر نئی قیادت سامنے نہیں آئی تو کیا ہوگا۔
اس لیے دوسرے سوال کے جواب کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے سوال کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے راستے کھولنے چاہیے۔ سیاسی بند راستے اور بند گلیاں کراچی کا سیاسی گلہ گھونٹ رہی ہے جو پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ابھی وقت ہے کہ سب مل کر راستہ تلاش کریں اور نئے خون کو راستہ دیا جائے۔