پاکستان کی سیاست اور عوامی رنگ بھی عجیب ہے۔ یہاں کسی پاپولر لیڈر کو قتل جیسے جرم میں پھانسی لگا دی جائے، کرپشن اور جھوٹا و بددیانت قرار دے کر نااہل کر دیا جائے تب بھی انھیں پاکستان کی سیاست سے مائنس نہیں کیا جا سکتا۔
بھٹو کو قتل کے کیس میں پھانسی دی گئی لیکن بھٹو ازم سیاست میں آج بھی موجود ہے، میاں نواز شریف کو ہائی جیکنگ کیس میں سزا دی گئی، جلا وطن کیا گیا اور تاحیات نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ آج بھی پاکستان کی سیاست کے محور ہیں۔ پاکستان کی سیاست ان کے ارد گرد ہی گھوم رہی ہے۔
میں نے اسی تناظر میں لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی جس کا واحد مقصد میاں نواز شریف کی موجودہ سیاسی سوچ اور سیاسی حکمت عملی جاننا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر ان سے وطن واپسی کے حوالے سے بات نہیں کی۔ کیونکہ میرے خیال میں جن باتوں کا جواب مجھے معلوم ہے انھیں پوچھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ نواز شریف کب واپس آئیں گے یہ ہم سب جانتے ہیں، اس میں ابہام والی کوئی بات نہیں ہے۔
لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات میں اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ میں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پوچھا کیونکہ آجکل اس کے بارے میں بہت شور ہے۔ نواز شریف نے کہا تحریک عدم اعتماد لانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عدم اعتماد لانے کے بھی بہت سے طریقے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد کونسے اور کیسے طریقے سے آرہی ہے۔ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے خلاف نہیں ہوں لیکن یہ اہم ہے کہ عدم اعتماد کیسے آرہی ہے۔ اگر عدم اعتماد اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر آئے گی تو میں سمجھتا ہوں ہمیں اس کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اگر عدم اعتماد سیاسی جماعتیں اپنے بل بوتے پر لاتی ہیں تو اس کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔
ایسی عدم اعتماد جس کے پیچھے اسٹبلشمنٹ ہو ہم اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے اگر انھوں نے لانی ہے تو انھیں ہماری ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ وہ ہماری مدد کے بغیر بھی آسانی سے لے آئیں گے۔
میاں نواز شریف نے کہا حکومتی اتحادی جماعتوں کو آزادی سے اپنے سیاسی فیصلے کرنے دیے جائیں۔ انھیں ڈکٹیشن دیکر مجبور نہ کیا جائے تو سیاسی جماعتیں سیاسی راستہ بنانا جانتی ہیں۔ جب ان سے مجبوری میں فیصلے کروائے جاتے ہیں وہ بھی واضح نظر آتے ہیں۔
اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنے فیصلے خود کریں۔ اس میں اگر وہ متحد ہو کر عدم اعتماد لاتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ ویسے آپ نے دیکھا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کو کس طرح مجبور کر کے ساتھ رکھا جا رہا ہے، اگر آج انھیں آزاد فیصلے کرنے دیے جائیں تو وہ کیا فیصلہ کریں گے ہم سب جانتے ہیں۔
میاں نواز شریف کا موقف ہے کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا۔ اگر عدم اعتماد کے بعد بھی جو حکومت بننی ہے آپ نے اسے سولہ ماہ چلانا ہے تو اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ نواز شریف اس حکومت کو سیاسی اصطلاح میں بریج گورنمنٹ کہتے ہیں۔ ان کی رائے میں لمبی بریج گورنمنٹ نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہمارے مفاد میں۔ آپ کتنی بھی اچھی بریج گورنمنٹ بنا لیں اس کی کارکردگی اچھی نہیں ہو سکتی۔
اگر عدم اعتماد کے بعد حکومتی جماعت سے ہی وزیر اعظم لایا جائے تو نواز شریف کی رائے میں یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہو گی، کیونکہ یہ حکومت بھی کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے گی۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کی کارکردگی ان سے بھی بری ہو۔
ایسے میں انتخابات کے موقع پر لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ زیادہ خرابی عمران خان نے کی ہے یا اس بریج گورنمنٹ نے کی ہے۔ عمران خان کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جائے گا میں آسمان سے تارے توڑ کر لا ہی رہا تھا۔ ستارے راستے میں تھے اور مجھے ہٹا دیا گیا۔ اور ساری خرابی اس گورنمنٹ کی ہے۔ اس لیے عوام کو بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گا کہ ان پر زیادہ ظلم کس نے کیا ہے۔
نواز شریف کا موقف ہے کہ اگر عدم اعتماد لائی جائے تو ملک میں فوری انتخابات ہونے چاہیے۔ انتخابات کے نتیجے میں بننی والی نئی حکومت ہی ان مسائل کو حل کر سکے گی۔ اس کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کا مینڈیٹ ہوگا۔ نواز شریف کی رائے میں ملک میں عدم اعتماد بھی فوری آنی چاہیے اور پھر اس کے بعد ملک کو نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔ یہی مسائل کا حل ہے۔
البتہ انتخابات شفاف ہونے چاہیے۔ عوام کو اپنی مرضی سے اپنی حکومت منتخب کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ مرضی کی حکومت لا کر دیکھ لیا ہے، نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اب عوام کو اپنی مرضی کی حکومت لانے کا موقع دیا جائے وہ بہتر فیصلہ کریں گے۔ میں نے کہا اگر دوبارہ دھاندلی ہوگئی۔ پھر آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ اب تو ای وی ایم کا قانون بھی بن گیا ہے۔
نواز شریف نے کہا اب جو انتخابات ہونگے ان میں 2018ء جیسے دھاندلی نہیں ہو سکے گی۔ مجھے امید ہے کہ سب کو سمجھ آگئی ہوگی۔ ایسے میں اسحاق ڈار نے درمیان میں بولتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کے بعد ای وی ایم جیسے قوانین کو ختم کر کے الیکشن کی طرف جانا ہوگا۔
سب سیاسی جماعتیں اس کے خلاف ہیں۔ جنھوں نے ووٹ بھی دیا ہے انھوں نے بھی مجبوری میں ہی ووٹ دیا تھا۔ وہ بھی خلاف ہیں۔ اس لیے یہ ختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا ای وی ایم ایک اصطلاح ہے جب ای وی ایم نہیں تھی تب بھی دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ وہ کہنے لگے ہماری جدو جہد اس کے خلاف ہی ہے۔ اسی لیے تو ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے ہیں۔ ہم اگلے انتخابات میں ووٹ کی عزت کی ہر ممکن حفاظت کریں گے۔
میں نے کہا ابھی تک تو کھیل یہی نظر آرہا ہے کہ عمران خان کو مائنس کر کے تحریک انصاف سے ہی وزیر اعظم آئے گا۔ تحریک انصاف کے اندر ٹوٹ پھوٹ بھی نظر آرہی ہے۔ وہاں وزارت عظمیٰ کے بہت سے امیدوار بھی نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کہہ رہے ہیں عدم اعتماد ہم لائیں گے اور وزیر اعظم ان کا بنے گا۔ میں یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر انھوں نے تحریک انصاف سے ہی دوبارہ وزیر اعظم بنانا ہے تو عدم اعتماد بھی تحریک انصا ف سے ہی لے آئیں۔ ان کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
ہم سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ ہم عدم اعتماد لائیں گے اور ان کے وزیر اعظم کے لیے راہ ہموارکریں گے۔ عوام کی عدالت میں بھی ملزم کے طور پر ہم کھڑے ہونگے اور فائدہ بھی ان کا ہوگا۔ یہ کونسی سیاست ہے۔ ہم عدم اعتماد لائیں تو اگلا وزیر اعظم ہماری مرضی سے بنے گا اور فوری انتخابات ہوں گے۔ میں نے کہا کوئی تو صورت ہوگی کہ عدم اعتماد بھی آجائے اور پارلیمنٹ بھی مدت پوری کرے۔ نواز شریف خاموش ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد اسحاق ڈار بولے پھر وزیر اعظم پی ڈی ایم سے ہوگا۔ ہم اپنی سولہ ماہ کی کارکردگی کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہونگے۔ کسی اور کی نااہلی کا ہم کیسے جواب دے سکتے ہیں۔
میں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بہت ضدی ہیں۔ اس کی وجہ سے بات نہیں بنتی۔ انھوں نے کہا میں ضدی نہیں ہوں میں ایک Pragmaticسیاستدان ہوں۔ میں عوام کو جوابدہ ہوں۔ اقتدار اور ووٹ بینک میں جب بھی فیصلہ کرنے کا وقت آیا ہے تو میں نے ووٹ بینک کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ ایسا اقتدار نہیں چاہیے جو ووٹ بینک کی قیمت پر ملے۔ ووٹ بینک اقتدار دے سکتا ہے لیکن کتنا ہی مضبوط اقتدار ہو ووٹ بینک نہیں دے سکتا۔ اس لیے عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ جو بھی کریں عوام کے اعتماد کے مطابق ہی کریں گے۔
یہی میری سیاست ہے۔ نواز شریف کی رائے میں عمران خان کو گھر بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مقتدر حلقے بس نیوٹرل ہو جائیں سیاسی قوتیں انھیں خودہی گھر بھیج لیں گی۔ ہم کسی کو نہیں کہتے ہمیں اقتدار میں لاؤ۔ ہم کہتے ہیں شفاف انتخابات ہوں اور جس کو بھی عوامی مینڈیٹ مل جائے اس کو حق حکمرانی ملنا چاہیے۔